تحریر:حمیرا علی
دنیا کے نقشے میں گلگت بلتستان جہاں قدرتی حسن و جمال کا ایک حسین مرقّع ہے وہاں تعلیم و ترقی کے میدان میں بھی یہ پاکستان کا وہ واحد خطہ ہے جہاں شرح خواندگی ملک کے دیگر خطوں کی نسبت حوصلہ افزا ہے۔ ہم جب گلگت بلتستان کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو شیری بدد (آدم خور بادشاہ) کے دور سے لیکر1800ء کے آخری عشرے تک اس خطے میں تعلیم و تربیت کی تاریخ دھندلی نظر آتی ہے البتہ 1893 ء کے دوران گلگت بلتستان (سابقہ شمالی علاقہ جات) کے مختلف علاقوں، گلگت خاص، استور اور گوپس میں پرائمری سکولوں کی بنیاد کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے بعد نصف صدی گزر جانے تک علاقے کے اندر کسی درسگاہ کا وجود نظر نہیں آتا۔ مذکورہ سکولوں سے پانچویں پاس کرنے کے بعد مالی استطاعت کے حامل افراد نے اپنے بچوں کو کشمیر بھیج کر اْنہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کروایا لیکن کم دست افراد کے بچے تعلیم سے محروم رہے کیوں کہ اْس زمانے کے نا مساعدمعاشی نا آسودگی سے نبرد آزما ہوتے ہوئے مڈل یا پھر ثانوی تعلیم کی سند حاصل کرنا جگر جوکھوں کا کام تھا لہذا اْس زمانے کی شرح خواندگی آج کے دور کی نسبت سے آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ اگرچہ مذکورہ درسگاہیں پہاڑوں کے دامن اور لب دریا پھیلے ہوئے دورافتادہ بستیوں کے باسیوں کی رسائی میں نہ ہونے کی وجہ سے اس خطے میں آبادی کی بڑی تعداد تعلیم کے نور سے محروم رہی تاہم ان اداروں کے قرب و جوار میں رہنے والی آبادی نے ان سکولوں سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا۔ یوں ان درسگاہوں سے فارغ التحصیل طلبا اپنی بساط کے مطابق تا حیات علاقے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ اس خطے میں تعلیم کو سب کے لئے عام کرنے کے ضمن میں حکومت پاکستان کی جہد مسلسل قابل داد و تحسین ہے۔ لیکن علاقے میں سیاسی تغیر و تبدل کی وجہ سے علاقے میں سکولوں کے جال پھیلا نے کاکام التوا کا شکار ہوتا رہا۔
ایسے میں ڈائمنڈ جوبلی پرائمری سکولوں کا تصور گلگت بلتستان میں تعلیم و تربیت کے میدان میں علم کی روشنی کا ایک مینار بن کر اْبھرتاہے یوں 1964 ء کو علاقے میں پہلی مرتبہ 24 ڈائمنڈ جوبلی پرائمری سکولوں کا ایک ساتھ اجرا ہوتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان سکولوں کے لئے کوئی باقاعدہ کمرہ جماعت نہیں تھے بلکہ عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گھروں اور عبادت خانوں میں تعلیم کی روشنی سے اپنے مستقبل کے معماروں کو فیضیاب کرنا شروع کیا۔ یہ تعلیم کی جانب پہلی آگاہی تھی جو کہ آغا خان ایجوکیشن سروس (سابقہ سپریم کونسل فار سنٹرل ایشیا) نے دی تھی۔ ادارہ ہذا کا تعلیمی نظام اپنے طرز کا وہ واحد نظام ہے کہ جس میں وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق طالب علموں کوجدید سہولیات سے آراستہ کیا جا تا ہے۔
موجودہ وقت میں گلگت بلتستان میں سرکاری و غیر سرکاری سکولوں کو ملاکر کل 2100 یا اس سے کچھ زیادہ سکول مصروف عمل ہیں جن میں آغا خان ایجوکیشن کی زیر نگرانی چلنے والے پرائمری سے لیکر ہائر سکینڈری سطح تک 107 سکول کام کر رہے ہیں جبکہ 25200طلبہ ان سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ درجہ بندی کے لحاظ سے ان سکولوں میں زیر تعلیم طلبا و طالبات اور سکولوں کی تعداد اس طرح سے ہے:
پرائمری سطح پر کل 44 سکول ہیں اور ان سکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد4107 ہے۔
مڈل سطح پر کل23سکول ہیں اور ان سکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد 4422 ہے۔
ہائی سطح پر کل 36سکول ہیں اور ان سکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد14663ہے۔
ہائیر سیکنڈری سطح پر 4سکول ہیں اوران سکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد2027 ہے۔
1946 ء سے آج یعنی 2019 ء تک اس خطے میں تعلیم کے سفر کو پرکھا جائے تو یہ اندازہ لگانے میں کوئی دقت نہیں ہوگی کہ گلگت بلتستان کی شرح تعلیم،خصوصی طورپر تعلیم نسواں، میں روز افزوں اضافہ آغا خان ایجوکیشن سروس ہی کی مرہونِ منت ہے۔ اس وقت انہی سکولوں سے فارغ التحصیل طلبہ عملی زندگی میں نہ صرف اپنا علاقہ بلکہ پورے کرہ ارض کی تعمیرو ترقی میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستان کی سول سروس، افواج پاکستان، تعلیمی، سماجی، قانونی اور مالیاتی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے علاوہ طب، سائنس اور ادب میں بھی اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔
تعلیم کے میدان میں اپنے سکولوں کو زمانے کے جدید تعلیمی ماحول سے ہم آہنگ کرنے اور اس علاقے کی نسل کو آنے والے دور اور دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے ساتھ مقابلے کے لئے تیار کرنے کوآغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان نے چیلنج کے طور پر قبول کیا ہے۔ یوں ادارہ ہذا اپنے تعلیمی اہداف کو حاصل کرنے کیلئے دن رات کوشاں ہے۔ اس ضمن میں ادارے کو جو چیلنج درپیش تھے اور ہیں اْن میں بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت، صاف ماحول، سکول کی عمارتوں کی مرمت و توسیع اور سکولوں کو اپ گریڈ کرنا شامل ہے۔آغا خان ایجوکیش سروس پاکستان،گلگت بلتستان کے سکولوں میں اپنی بساط کے مطابق ان چیلنجوں کا تندہی سے مقابلہ کر رہی ہے۔
بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کے حوالے سے ادارہ ہذا نے پیشہ وارانہ تربیتوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اساتذہ کو جدید طرز کی پیشہ وارانہ تربیت سے گزارنے کا عمل جاری ہے۔ اس وقت گلگت کے 30 فیصد دوراْفتادہ سکولوں کی عمارتوں میں مرمت کا کام ہو چکا ہے اور باقیوں پر کام جاری ہے۔ بچوں کو پینے کے لئے صاف پانی مہیا کرنے کے حوالے سے سرکاری و نیم سرکاری اداروں سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت ادارے کی توجہ اْن سکولوں پر ہے جہاں موسمی تغیر کی وجہ سے سیکھنے کے عمل میں خلل پڑتا ہے اس ضمن میں گزشتہ تین سالوں سے سکولوں کو اپ گریڈ کرنے پر خصوصی توجہ دی جار ہی ہے جس میں پرائمری سکولوں کو مڈل، مڈل سکولوں کو ہائی اور ہائی سکولوں کو ہائیر سیکنڈری کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ 2017 ء سے لیکر اب تک 20 سکولوں کو ترقی کے اس مرحلے سے گزارا جا چکا ہے اور طلبہ کی تعدادکو مد نظر رکھتے ہوئے سکولوں کو مزید وسعت دینے پرسنجیدگی سے کام جاری ہے۔ سکولوں کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ ان سکولوں کو آغا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بور ڈ کے ساتھ الحاق کا عمل بھی جاری ہے اب تک 14 سکولوں،جن میں ہائی سکول اور ہائیر سیکنڈری سکول شامل ہیں،کا الحاق ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ 4200 سے زیادہ نونہالوں کے لئے ای۔ سی۔ ڈی کے 180 کمرہ جماعتوں کا انتظام و انصرام کیا جا چکا ہے۔ مزید برآں سکولوں میں سائنس کی لیبار ٹری اور لائبریریوں کو جدید طرز پر ترتیب دینے اور ان کی تزئین و آرائش پر کام کیا جا رہا ہے۔آغا خان ایجوکیشن کے سکولوں میں اساتذہ کی پیشہ وارانہ تربیت،سکول کی عمارتوں میں مرمت و توسیع، صفائی کے انتظام کے علاوہ سکولوں کی اپ گریڈیشن سے دور اْفتادہ علاقوں میں رہنے والی آبادی کو اْن کے بچوں کا مستقبل درخشان نظر آنے لگی ہے۔ آغا خان ایجوکیشن کا طرز علم اگر اسی نہج پر قائم رہا تو گلگت بلتستان کی تعلیم کی شرح پاکستان میں اپنے اوج کمال کو پہنچ سکتی ہے۔