آبی آلودگی ۔۔۔ایک سنگین خطرہ

شبنم
 پانی خدا کی دی گئی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت  اور عطیہ ہے۔ پانی کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی ناممکن ہے۔ اور ہم اس نعمت کا جتنا بھی شکر بجا لائیں تو کم ہے۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں پانی اور خاص طورپر صاف پانی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔  لیکن انسان کے طریقہ استعمال اور دیگر ضروریات اور وسائل کے استعمال نے اس نعمت کو ہی جان لیوا بنا دیا ہے۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں خوراک کے مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کی آلودگی کا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آلودہ پانی انسانی صحت کے لئے کتنا نقصانددہ ہے
آبی آلودگی اس وقت ہوتی ہے جب پانی کا کوئی جسم آلودہ ہو جاتا ہے۔ یہ آلودگی جسمانی میلے جیسے پلاسٹک کے پانی کی بوتلیں یا ربڑ کے ٹائروں کی وجہ سے ہو سکتی ہے یا یہ بہاؤ جیسی کیمیائی چیزیں ہو سکتی ہیں جو فیکٹریوں ، کھیتوں، شہروں،کاروں اور سیوریج   گزرگاہوں میں جانے کا راستہ تلاش کرتی ہے۔ اور اس طرح ندی نالوں اور دریاؤں کا پانی آلودہ کر دیتا ہے۔  آبی آلودگی نہ صرف انسانوں کے  لئے بلکہ جانوروں اور پودوں کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں
کہتے ہیں  ہر ایک کی جان صاف شفاف پانی میں بستی ہے۔ جب تک پانی صاف نہیں ہوگا اس وقت تک کوئی محفوظ نہیں ۔
یہ کہنا بلکل غلط نہیں ہوگا کہ یہ آلودگی انسانوں کی ہی پیدا کردہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ انسانوں کے لئے فائدہ مند نہیں لیکن پھر بھی ہم یہ کر رہے ہیں ۔
اس کا ایک زندہ مثال دریائے گلگت کا پانی کنوداس، ذوالفقارآباد، جٹیال اور دیگر علاقوں میں پینے کے لئے استمعال ہوتا ہیں۔ دریا کا گدلا اور آلودہ پانی استعمال کر کے عوام مختلف وبائی امراض جن میں ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ، ہیضہ، یرقان اورایپنڈیکس جیسی مہلک بیماریوں میں تیزی سےمبتلا رہے ہیں۔
 اور سکردو شہر میں بھی لوگ پانی کو آلودہ کر رہے ہیں۔ لوگ دریا کے کنارے اپنے فضلے بہا دیتے ہیں اور بہت ساری جگہوں سے لوگ کپڑے اور بچوں کے پمپرز وغیرہ دھوتے ہیں اور جگہ جگہ کچرے بھی اسی دریا میں پھینک دیتے ہیں ۔ خاص طور پر یہاں گھروں کے گھٹرز اور نکاسیوں کے پانی کا رخ دریا کی طرف ہوتے ہیں ۔
 بہت سے ریسرچرز آئے اور انہوں نے گلگت بلتستان کے 97 مختلف جگہوں سے پانی کی ٹیسٹ کی تو یہاں کے صرف 22 فیصد پانی پینے کے لائق تھے۔ گلگت بلتستان کا پانی دریاؤں سے ہو کر پورے پاکستان کو کراس کر کے سمندر کی طرف بڑھتا ہے۔ لیکن بھیج کا سارا علاقہ اس پانی کو استعمال کرتا ہے ۔ جبکہ یہ پانی استعمال کے قابل نہیں رہتے۔ اور ایک طرف یہ ہے کہ یہاں ہسپتالوں میں بھی مشینریز کی کمی ہے۔ جس سے لوگوں کا اچھی طرح معائنہ کر سکے۔ کیونکہ لوگوں کو علم نہیں ہے کہ یہ ساری بیماریاں آلودہ پانی کی وجہ سے ہے۔
 آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پانی کی حفاظت کی جائے۔   ۔
اس کے لئے فنڈز کی ضرورت ہے۔ جس کے زریعے پانی کو  فیلٹر کر کے گھروں تک سپلائی کر سکیں۔ اور آلودہ پانی کو ضائع کرنے کے لئے الگ نظام بنایا جائے ۔اور دریا کے پانی کو بھی فیلٹر کر کے پینے کے لائق بنانا ہوگا ۔اس کے لئے سب سے پہلے حکومت سمیت عوام کو بھی قدم اٹھانا ہوگا۔
 آج ایک عام آدمی گھر بیٹھے صاف پانی کو ترس رہے ہیں کل یہ بھی میسر نہیں ہوگا
اسی لئے اس بڑھتی ہوئی آلودگی کو روکنا ہوگا یہ صرف میں سے نہیں ، بلکہ ہم سے ہو گا۔

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan