ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکرؔ
جب کبھی بھی کسی خطے میں اچھے مواقع کی فراوانی ہوتی ہے، خوشحالی کی امکانات میں اضافہ ہوتا ہے، لوگوں کی شعوری سطح تھوڑی سی بلند ہونے لگتی ہیں، اس وقت اس خطے ،ملک یا قوم کے بد خواہ کوئی نہ کوئی ایسی سازش کرتے ہیں کہ یہ تمام مواقع آتے آتے رُک جاتے ہیں، یا ان مواقع کے متوقع استفادہ کنندگان کی جگہ کوئی اور اچانک سے نازل ہو کر ان مواقع کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتی ہے۔اگر اُس خطے کے اہل ِنظر کی انکھیں کھلی ہوں، دل و دماغ فوری نوعیت کی معاملات کے ساتھ آنے والی حالات پر بھی نظر رکھتے ہوں، مواقع اور مشکلات کا بہتر ادراک رکھتے ہوں اور ان ممکنہ حالات سے اپنے لوگوں کو با خبر بھی رکھیں، تو ممکن ہے اس طرح کی سازشیں کامیاب نہ ہوں۔ لیکن اگر تجزیاتی ذہن والے اہلِ ادراک بھی یہ خیال کریں کہ انہیں کسی نے نہیں کہا ہے، نہ ان کی فرض منصبی میں شامل ہے، نہ انہیں ان باتوں کو کوئی صلہ ملے گا، بلکہ یہ ممکن ہے کہ ان پر بے جا سوالات کی بارش ہوگی ، تو کیوں ان چکروں میں پڑیں، جو ہوتا ہے ہونے دیں۔ اگر خدا نخواستہ ایسی صورتحال ہو جائے تو اللہ خیر کرے، اہل ِشعور پہلے متاثر ہوں گے پھر دوسروں کی باری آئے گی۔ اپنے شعوری فریضے کی تکمیل ہر ذی شعور کی زمہ داری ہے۔
اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ تجزیاتی شعور کے نتائج ضروری نہیں کہ ویسے ہی ہوں کیونکہ وہ ایک فرد کا تجزیہ ہے، لیکن اگرپروردگار نے کسی کو ذہن و شعور اور تجزیاتی استعداد کی نعمت سے کسی حد تک نوازا ہے تو اس کے نتائج اتنے بے معنی بھی نہیں ہوں گے۔ ممکن ہے کہ ایسے تجزیے عوام الناس کو کسی بھی نا خوشگوار صوتحال سے محتاط رہنے میں اہم کردار ادا کرے یا کسی ایسی صورتحال کو رونما ہونے یا اس کی شدت کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو۔ ممکن ہے اس طرح کی تجاویز کسی نہ کسی صورت میں بد خواہوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیں ۔ لیکن ذہین گروہوں کی سازشیں بھی بہت چالاک نوعیت کے ہوتے ہیں جن سے بظاہر کسی قسم کے سازش کی بو نہیں آتی ۔ایک عام آدمی یا سادہ انسان جس کو آپ خوش عقیدہ یا خوش فہم بھی کہہ سکتے ہیں، ان کے سامنے کسی ایسے نظریے یا خیال کو پیش کیا جائے تو ان کے پاس دس قسم کے دلائل اور وجوہات ہوتی ہیں جو اس خیال کو رد کرتے ہیں کہ دور پس منظر میں کہیں کوئی سازش چل رہا ہے،لیکن تجزیہ نگار کے پاس بظاہر یا تو ان دلائل کے جوابات نہیں ہوتے ، یا وہ جواب دینا مناسب نہیں سمجھتے، لیکن بعد میں ہوتا وہ ہےجو کسی تجزیہ نگار کے ذہن نےکبھی محسوس کیا تھا۔ عموماً اس طرح کی سازشیں بلا واسطہ کا بلاواسطہ ہوتا ہے جس کے درمیان کسی تعلق یا وابستگی کا ثبوت تقریباً نا ممکن ہوتا ہے۔ یوں کہیں تو بے نہ ہوگا کہ سٹیج پر موجود اداکار کا ہدایت کار خود ایک اداکار ہے جو کسی اور ہدایتکار کا سکرپٹ سنا رہا ہے۔ لیکن ڈرامے کی سیریز میں وہ بطور ہدایت کار موجود ہے۔ شاید اسے خود بھی معلوم نہ ہو کہ ان کا اولین ہدایت کار کون ہے؟
مذہبی معاملے میں اس طرح کی سازشوں کو شیطانی حیلہ تصور کیا جاتا ہے جو کسی نہ کسی طور انسانیت کی بھلائی، خوش حالی، امن و امان اور روداری کی فروغ کو سبوتاژ کریں۔ اور اس طرح کے حیلے انتہائی خوبصورت لفاظی اور تصورات کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں جن کے دام میں مفاد پرستوں کے ساتھ سادہ لوحوں اور اندھی تقلید کے تحت اپنے نام نہاد رہنماؤں کی فرمودات کو حرفِ آخر ماننے والے سبھی آسکتے ہیں۔
اگر چہ یہ معاملات انتہائی حساس، نازک اور چالاک نوعیت کے ہوتے ہیں جن میں ایک لفظ ، ایک جملے یا ایک نعرے سے بات کہیں سے کہیں پہنچ سکتی ہیں۔ تاہم ایسے میں بھی حتی الامکان محتاط ترین طریقے سے بد خواہوں کی سازشوں کو ناکام بنانا چھپے رستموں یعنی پوشیدہ رہنماؤں کا کمال ہوتا ہے جو ایسے معاملات کی بہتر ادراک کے ساتھ درد بھی رکھتے ہیں۔
گزشتہ سالوں میں جب گلگت بلتستان میں معاشی ترقی کی ایک بڑی لہر آنے کی توقع تھی تو اتفاق سے کرونائی لاک ڈاؤن شروع ہوا اور بہت ساروں کے معاملات خود بخود حل ہوگئے ۔ بقول ہمارے ایک عزیزہ کے جنہوں نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ گزشتہ دوسالوں کے دوران اندر سے سہل پسند ، نا اہل اور کام چور تمام افراد اور اداروں نے اپنی بے عملی کا جواز کرونا کی چھتری میں پناہ لے کر تراشا ہے۔ یہاں اس بات پر تبصرہ نہیں کروں گا کہ کرونائی لاک ڈاؤن واقعی ایک انسانی ضرورت تھی بھی یا نہیں ؟اور کیا اس میں بھی کسی سازش کا حصہ تھا ، ہےیا نہیں؟
فرض کریں اگر معاشی ہلچل اور نشو نما کےلیےلوگوں کی بڑھی ہوئی کار کردگی کو کسی وجہ سے روکنا مقصود ہو لیکن کرونا جیسی خوبصورت جواز فراہم نہ ہو ، تو ایسے میں شاید کچھ اور ہونا چاہیے جس پر کسی کو شبہ بھی نہ ہو کہ یہ دراصل معاشی نشونما ، ممکنہ مواقع اور خوشحالی کی امکانات کو کم کرنے کےلیے کی گئی دیدۂ و دانستہ منصوبہ ہے۔
مجھے اس وقت ایک عظیم صوفی بزرگ کی ایک کتاب کے وہ اقتباسات یاد آتے ہیں جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ شیطانی حربے اور حیلے اس قدر عجیب و غریب ہوتے ہیں کہ آپ کو ان کے شیطانی ہونے کا نہ صرف شبہ تک نہیں ہوتا بلکہ اسے کار ِخیر اور مذہبی فریضہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اس طرح کی شیطانی سازشیں عموماً مقدس ناموں، مقدس عملیات اور عقائد سے جوڑ دی جاتی ہیں لیکن ان کے نتائج انسانیت اور معاشرے کی فلاح و بہبودنہیں بلکہ افتراق و عناد، دشمنی اور نفرت نتیجتا ًتنگی اور بد حالی کی صورت میں نکلتا ہے۔
پتہ نہیں کیوں چائینہ پاکستان معاشی راہداری سے وابستہ معاشی انقلاب کی بازگشت کے ساتھ مجھے اس طرح کے شیطانی حیلوں کی بو آتی ہے جس کا ممکنہ سٹیج فرقہ وارانہ نفرتوں کو ہوا دینے والے ادارے ، لسانی قومیتوں کو بہکانے والی تنظیمیں اور عدمِ رواداری یا انسانی اخلاقیات سے ہٹ کر مفاد پرستی یا سادہ لفظوں میں فائدہ سازی کی رویوں کو فروغ دینے کی صورتوں میں ممکن ہیں۔
ایسے میں اہل ِ شعور کو بالخصوص اس طرح کی رجحانات پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں مقدس ترین تصورات، عقائد اور ناموں کے ساتھ کہیں نفرتوں کو اس قدر ہوا دینے کی کوشش تو نہیں ہو رہی جس کی نتائج کی تلافی ممکن نہ ہو۔ کہیں آپ کے لسانی، علاقائی اور سیاسی وابستگیوں کو اس قدر بڑھاوا تو نہیں دیا جا رہا جس سے ممکنہ فوائد کی بجائے سنگین نقصانات کی راہیں ہموار ہو جائے۔ فوری فائدوں کی لالچ دلا کر کاروباری اخلاقیات سے آپ کو بے گانہ کردیں تاکہ آپ سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے اور یوں آپ اصل فوائد سے ہاتھ دھو بیٹھیں جس کے بے پناہ مواقع موجود ہیں اوران اخلاقی خامیوں کو بنیاد بنا کر یہ مواقع آپ کے ہاتھ سے چھین کر کچھ اور مفاد پرست اپنے ہاتھوں میں لے لیں جن کے وہ اصل حقدار بھی نہیں۔
میں نے اپنی کوتاہ تجزیاتی شعور کی روشنی میں جو کچھ محسوس کیا ہے، اسے قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اہلِ شعور خود ان اشارات کا مزید تجزیہ اور ان پر تبصرے کر سکتے ہیں۔