خاطرات :امیرجان حقانی
سماجی ایشوز اور مسائل میرے پسندیدہ موضوعات ہیں. اسلامی تعلیمات بھی اخلاقیات اور سماجیات کا واضح درس دیتی ہیں. سماج کی اصلاح و تزکیہ تمام شرائع کا مشترک درد ہے. مقصد دین ہی تزکیہ فرد و معاشرہ ہے. سزا و جزا اور قوانین شریعت بھی دراصل تزکیہ فرد و سماج کے لیے ہیں. گزشتہ کافی عرصے سے بغور جائزہ لے رہا ہوں، گلگت بلتستان میں پولیس ڈیپارٹمنٹ نے اپنی بساط کے مطابق منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رکھا ہے.
نیچلی سطح پر یہ کریک ڈاؤن انتہائی ناکافی ہے.
سابق حکومت نے “تمباکو کنٹرول ایکٹ 2020” کے نام سے قانون بنایا ہے. اس ایکٹ کے مندرجات پڑھنے کا اتفاق نہ ہوسکا، کیونکہ دستیاب نہیں ہے تاہم امید کرسکتا ہوں کہ اس تازہ ترین ایکٹ میں منشیات فری کے حوالے سے جملہ قوانین و ضوابط اور ریکگنائزڈ اداروں کے متعلق مکمل ہدایات موجود ہونگی.
جی بی کی پولیس جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے منشیات فروشوں اور نشئیوں کو پکڑ کر سوشل میڈیا کا زینت بنارہی ہے. کچھ نہ ہونے سے اتنا کچھ بھی کافی ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ جملہ منشیات فروشوں، بالخصوص بڑے بیوپاریوں اور بااثر افراد و اہم شخصیات کی اولاد و متعلقین جو کسی بھی طرح منشیات میں ملوث ہیں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے. اس کے لیے حکومت سمیت عوام کو بھی متعلقہ اداروں بالخصوص کریک ڈاؤن پر پولیس کے ساتھ اخلاقی اور اطلاقی تعاون کرنا ہوگا.
سب سے اہم بات یہ ہے کہ منشیات کے مضر اثرات پر ترجیحی بنیادوں پر آگاہی سیمنارز، ورکشاپس اور تربیتی پروگرام کا آغاز کرنا ہوگا. تعلیمی اداروں سمیت ہر مسجد، امام باڑہ، جماعت خانہ اور مکاتب و مدارس میں آگاہی و تربیتی سلسلے شروع ہونے چاہیے. سوشل ویلفیئر کا ڈیپارٹمنٹ موجود ہے مگر اس کی ایکٹیویٹز جو ضروری ہیں دیکھنے کو نہیں ملتی ہیں.انہیں بھی زبانی جمع خرچ سے باہر نکل کر فعال کردار ادا کرنا ہوگا.
این جی اوز کی بڑی تعداد بھی منشیات کے حوالے کوئی قابل قدر کام کرنے سے قاصر ہے. چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں پر اپنے من پسند چند افراد کو کھانے پر مدعو کرکے ملٹی میڈیا پر چند سلائیڈ چلانے سے منشیات پر آگاہی نہیں دی جا سکتی ہے اور نہ ہی عالمی اداروں سے فنڈنگ کے لیے غیر مصدقہ و محقق رپورٹس بنانے اور پبلش کرنے سے یہ مسئلہ حل ہوگا.اس کے لیے گروانڈ ریالٹیز کے مطابق دو ٹوک اسٹریٹجی بناکر آگاہی اقدام کرنے ہونگے.
سرکار کا متعلقہ ڈیپارٹمنٹ، این جی اوز، علماء کرام، اساتذہ عظام، سماجی لیڈر،، سوشل ورکرز، ابلاغی ادارے غرض شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کی معاونت و شرکت سے ” منشیات فری گلگت بلتستان” کے لئے عملی اقدام اٹھانے ہونگے، آگاہی کیساتھ سزا وجزا کو نظام بھی بروقت، شفاف اور عدل پر مبنی ہونا چاہیے.
ورنا اس دن پچتھانا فضول ہوگا جس دن گلگت بلتستان اسلام آباد اور لاہور کا منظر پیش کرے گا. راتوں کو نوجوان لڑکے لڑکیاں نشے میں دھت ہوکر روڈ کنارے مردہ پائے جاوے یا ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ نشئیوں سے بھر جائے.اس صورت حال سے پہلے سب کو جاگنا ہوگا. قانون کو بھی حرکت میں آنا ہوگا. نوجوان نسل بری طرح متاثر ہورہی ہے. اس کا تدارک بہت ضروری ہے. اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو.