نئی دہلی:بھارت میں بابری مسجد کی شہادت اور ہندوانتہاءپسندوں کی کارستانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن بابری مسجد شہید کرنیوالوں میں شامل سکھ رہنماءجو بعدمیں مسلمان ہوگیاآج بھی اپنے کیے پر پشیمان ہے نے بتایاکہ اللہ معاف فرمائے، وہ خود تقریباً نیم پاگل ہو گیاتھا، دل اچاٹ ہو گیاتھا لیکن اللہ نے مجھے بچا لیا۔ مسجد شہید کرنے والوںمیں علاقے کا ڈاکٹر مہاج بھی شامل تھاجس نے ایک بار گٹر کا پانی پی لیا۔ اسی کے زہر سے چل بسا۔ ایک اور نوجوان، اندرا پاگل ہو کر مرا۔ بقیہ لوگوں کی بھی ایسی ہی عبرت ناک داستانیں ہیں،میں نے بھی ڈرانے خواب دیکھے۔ فتراک نیوز کی رپورٹ کے مطابق بابری مسجد کو شہید کرنے کی مذموم مہم میں شامل اس وقت کے طاقتور سکھ لیڈر، بلولیر سنگھ کرم سنگھ بلویرا اب دولت ایمان سے سرفراز ہو چکے اورنیا نام عبداللہ آدم شیخ بھائی ہے اور مولاناطارق جمیل ان کے آئیڈیل ہیں۔ ابوظہبی میں مقیم عبداللہ آدم شیخ کاکہناتھاکہ بابری مسجد کی شہادت کے وقت میرے دل میں یہ کھٹکا سا تھا کہ کسی بھی مذہب کے لوگوں کی پوجا پاٹ کے علاقے کو نقصان پہنچانا ٹھیک نہیں لیکن پھر سب کا ساتھ دینا پڑا، جب میں واپس گھر پہنچا، تو مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی تھی، پاگل ساہوگیاتھا۔ بعض مسلمان بھی میرے دوست تھے۔ میں اپنے مسلمان دوست مولانا واصف کے پاس گیا۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ سماجی بھلائی کے کام کرو مثلاً مساجد کی صفائی اور اللہ کی مخلوق کی خدمت، پھر سکھ ہونے کے باوجود سر پر عمامہ باندھ کر مسجدوں میں صفائی کرنے لگا اوراس سے مجھے بہت سکون ملا۔ جلد ہی مجھے دبئی میں سکھوں کی ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ میرا اصل ارادہ دبئی جا کر مسلمان ہونا تھا۔ میں جس سکھ یا ہندو ساتھی سے بھی پوچھتا کہ اسلام کیسے قبول کیا جاتا ہے، تو وہ مجھ سے جھگڑ پڑتا۔ بہرحال میں نے پگڑی اتار دی،بال کاٹ دئیے اور بالکل گنجا ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد مسلمان دوستوں کے ذریعے معلوم ہوا کہ شارجہ مرکز میں پاکستان سے ایک تبلیغی جماعت آئی ہوئی ہے۔ اس میں ایک سو سالہ بزرگ بھی ہیں۔ شارجہ مرکز کے مسلمانوں نے میرے ساتھ تعاون کیا۔ انھوں نے مجھے غسل کرایا۔ نیا جوڑا لے کر دیا اور پھر کلمہ پڑھایا۔ کلمہ پڑھنے کے بعد تین دن تک میں شارجہ مرکز میں سکون کی نیند سوتا رہا۔ اس کے بعد واپس کمپنی میں آ گیا اور ڈیرہ دبئی میں البراہسپتال سے ختنے کرائے، میں پھرشارجہ مرکز چلا گیا جہاں چار ماہ تک تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ رہا۔ ا±نہوں نے بتایاکہ 2005ئ میں مسلمان ہوا، نماز روزہ وغیرہ تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگانے سے سیکھے، میری خواہش ہے کہ پاکستان جا کرمولاناطارق جمیل سے ملاقات کروں۔مسلمان ایسے کام کریں جن سے اللہ راضی ہو جائے، یہ ہر انسان کی منزل مراد ہونی چاہیے۔