اقتصادی راہداری منصوبہ بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ بلاواسطہ نہیں بلکہ بالواسطہ پاکستان اور چائینہ کے درمیان ہے اس راہداری کی ایک مفصل تاریخ ہے برطانیہ کے حکمرانوں نے جب برصغیر پر اپنا قبضہ جمالیا تو انہوں نے اس راہداری کے علاقے کو فتح کرنے پر 3فوجی آفیسران کو وکٹوریل کراس( پاکستانی نشان حیدر کے برابر) سے نوازا اگر وہ اس راہداری کو فتح نہ کرتے تو ان کی حکمرانی خطے میں لڑکھڑانے والی تھی ا س راہداری جس کی ابتداء گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ (خنجراب ) سے شروع ہوتا ہے اسی راہداری کو اپنے زیر اثر رکھنے کے لئے ڈوگروں نے اس علاقے میں پیش قدمی کی الغرض ہنزہ خنجراب سے شروع ہوکر ضلع نگر،ضلع گلگت اور ضلع دیامر سے گزرنے والے راستہ(راہداری) ابتداء ہی سے بہت اہمیت کا حامل رہا ہے آج جب مملکت پاکستان ہر طرف سے بحرانوں کی زد میں پڑگیا تو ان بحرانوں سے نکلنے کے لئے میگاسائینٹیفک منصوبے کی ضرور ت پڑگئی تو پھر اسی راہداری نے مملکت پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لئے اپنے سینے کو چیر کرراستہ دیا ۔اقتصادی راہداری منصوبے کا آغاز گلگت بلتستان سے ہوتا ہے ضلع ہنزہ کے علاقے خنجراب سے شروع ہوکر پاکستان کے دیگر صوبوں تک پہنچنے والے اس راہداری میں گلگت بلتستان کا 6سو کلومیٹر راستہ استعمال ہوتا جس سے گلگت بلتستان کے تمام (10)اضلاع متاثر ہوتے ہیں اس منصوبے کی کل رقم 46ارب ڈالر ہے جس میں 11ارب ڈالر سڑکیں ،ریلوے اورفائبر آپٹکس کی تعمیر کے لئے رکھے گئے ہیں جبکہ 35ارب ڈالر کے منصوبے توانائی کے شعبے پر خرچ ہونگے جس میں سے 11.5ارب ڈالر سندھ ،9.5ارب ڈالر خیبر پختونخواہ +آزاد کشمیر ،7.1ارب ڈالر بلوچستان اور 6.9 ارب ڈالر پنجاب میں استعمال کئے جائیں گے حیران کن طور پر توانائی کے حوالے سے سب سے زیادہ پوٹینشل (صلاحیت) رکھنے والے اس علاقے میں کوئی بھی منصوبہ شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ دیامر بھاشا ڈیم ،ہینزل پاور پراجیکٹ سمیت دیگر توانائی کے منصوبے جن سے سستی ترین بجلی حاصل کی جاسکتی ہے کو بھی یکسر نظر انداز کیا گیا ہے ۔
گلگت بلتستان کو اقتصادی راہداری منصوبے میں حصہ داری کے لئے پیپلز پارٹی گلگت بلتستان نے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرکے متقفہ طور پر قرارداد کے زریعے مطالبہ کیا کہ ’اگر گلگت بلتستان اپنی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے حقوق سمیت سی پیک میں فوائد حاصل کرنے سے محروم ہیں تو ہماری متنازعہ حیثیت کو ختم کردیا جائے یا گلگت بلتستان کو اس منصوبے میں چائینہ اور پاکستان کے علاوہ تیسرے فریق کے طور پر تسلیم کرکے معاہدہ کیا جائے ‘مذکورہ اے پی سی میں چند ایک جماعتوں کے علاوہ تمام مذہبی سیاسی و علاقائی جماعتوں نے شرکت کی اس کانفرنس میں گلگت بلتستان کے جغرافیائی اور سیاسی حیثیت کے ہر پہلوؤں سے غور و خوض کیا ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ،ریسرچرو کالمسٹ اسرار الدین اسرار نے راہداری کی تاریخ پر بھرپور روشنی ڈالی اس کانفرنس میں صرف 2رہنماؤں کی باتیں یہاں درج کی جاتی ہیں تاکہ وفاقی حکومت کو علاقے میں پائی جانے والے غم و غصے کا اندازہ ہوسکے کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام ف کے صوبائی امیر مولانا سرورشاہ نے کہا کہ ضلع دیامر ،جو کوہستان کے پی کے ساتھ جڑا ہوا ضلع ہے ،نے الحاق پاکستان کے وقت بھی تحریری معاہدہ کیا ہے اب بھی ہم زبانی جمع خرچ کی بجائے تحریری معاہدے پر یقین رکھتے ہیں اگر گلگت بلتستان کو راہداری منصوبے میں نظر انداز کیا گیا تو یہ منصوبہ دیامر سے نہیں گزرسکے گا ‘،جبکہ اسلامی تحریک پاکستان کے صوبائی سینئر نائب صدر شیخ مرزا علی نے اس کوریڈور کو گلگت بلتستان کے لئے کوڑی دور قراردیا اور کہا کہ 68سال نظر انداز رہنے کے باوجود آج بھی ہمیں وفاقی حکومت تحفظ دینے کے لئے تیار نہیں ہے ‘۔یہ صرف ایک زبانی یا اخباری بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے عوام 68سالوں کے بعد ہوش میں آئیں ہیں اقتصادی راہداری منصوبے میں گلگت بلتستان کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا اب تک حیران کن ہیں حالانکہ وفاق اور گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے انتخابی کمپین کے دوران چھوٹی چھوٹی باتوں کو وزیراعظم پاکستان میاں محمدنوازشریف نے اپنے اعلان کا حصہ بنایا میرغضنفر گورنر گلگت بلتستان کی درخواست پر گلگت بلتستان میں نئی ضلع بندیوں کی منظوری دی ،بلتستان یونیورسٹی کی منظوری دی ، گلگت سکردو روڈ جیسے بڑے منصوبے کا اعلان سمیت کئی باتیں انہوں نے صرف اس لئے کی کہ وہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ان کا گلگت بلتستان کے عوام سے بہت لگاؤ ہے اور بہت سی چیزیں انہوں نے عملی طور پر سر انجام بھی دیدیا لیکن حیر ت انگیز طو ر پر سردار اختر مینگل ،سید خورشید شاہ ،مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے دباؤ کو تو مان لیا لیکن گلگت بلتستان کے عوام کی تحفظات کو جانا تک بھی نہیں گلگت بلتستان میں وفاقی اور علاقائی جماعتوں نے شروع سے گلگت بلتستان کے لئے اقتصادی راہداری منصوبے میں حصہ مانگا قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان نے 2اقتصادی زون کے لئے متفقہ طور پر قرارداد بھی پاس کیا اور سپیکر فدا محمد ناشاد کے درخواست پر وزیراعظم میاں محمدنوازشریف کے لئے شکریہ کا لفظ بھی شامل کیا گیا لیکن قرارداد کی حیثیت صرف کاغذ تک رہی معلوم نہیں مذکورہ کاغذ اب تک سلامت بھی ہے یا نہیں ۔
وفاقی حکومت کا گلگت بلتستان سے اقتصادی راہداری منصوبے میں ناروا سلوک کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 31جنوری کو اخباری خبروں کے مطابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’یہ بات طے ہے کہ باقی صوبوں کے پاس جو اختیارات ہیں وہی گلگت بلتستان کو بھی ملیں گے‘جبکہ سی پیک میں دیگر صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر کو بھی شامل کیا ہے لیکن جی بی کا نام و نشان تک نہیں جس کی تصدیق چیئرمین سی پیک مشاہد حسین سید نے ممبران گلگت بلتستان اسمبلی سے ملاقات کے دوران کیا اور واضح کیا کہ راہداری منصوبے میں گلگت بلتستان میں ایک ڈالر کی بھی سرمایہ کاری نہیں اس وضاحت پر ممبران اسمبلی سمیت وزراء کا جو رد عمل سامنے آیا ہے وہ مقامی اخبارات میں آچکا ہے کہ اپوزیشن اراکین سے بھی زیادہ حکومتی ممبران نے احتجاج کیا ۔
وفاقی حکومت کو اس بات پر سنجیدگی لینی پڑے گی کہ اس منصوبے میں جی بی کو نظر انداز کرنا گلگت بلتستان کے غریب عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہوگا یہاں کی عوام سوچتی رہی کہ گلگت بلتستان میں آج تک کوئی انڈسٹری نہیں کوئی بڑا کاروبار نہیں سرکاری نوکریوں پر پابندیاں ہیں یا نہ ملنے کے برابر ہیں ایک ناامیدی کی سوچ کے وقت انہیں اقتصادی راہداری منصوبہ امید کی کرن کے طور پر سامنے آیا ہے جسے دیگر صوبوں میں تقسیم کرکے ختم کیا گیا پانی سر سے گزرنے سے قبل وزیراعظم پاکستان علاقے کے عوام کو اس راہداری منصوبے میں خصوصی پیکج دیں تاکہ سراب اور ناامیدی کے درمیان انہیں یہ ایک امید کی کرن نظر آئے گی اور وزیراعظم پاکستان کا علاقے سے محبت کا ثبوت مل سکے گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کی صدارت وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے پاس ہے جنہوں نے پرویز مشرف کی آمریت کے وقت ہر قسم کی آفر کو ٹھکراکر نوازشریف اور مسلم لیگ ن سے اپنی محبت کاثبوت دیا ہے اب قائد مسلم لیگ ن کی زمہ داری ہے کہ انہیں اس کا بدلہ دیں گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی تحفظ بھی دیں اقتصادی راہداری کا حصہ دار بھی بنائیں ۔