میمونہ عباس خان
شہرِ گلگت چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھِرا ہوا، گلگت بلتستان (صوبے) کا چھوٹا سا، خوبصورت مرکزی شہر ہے جو اس پورے خطےکے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جس کاملک کے باقی حصوں سے زمینی رابطہ شاہراہ قراقرم کے ذریعے رہتا ہے اور یہاں کا تُنک مزاج موسم اگر دغا نہ دے تو پی آئی اے کی مہربانی کے سبب یومیہ، دو پروازیں وہ ٓذریعہ ہیں جو چند ہی خوش نصیب مسافروں کو گلگت ائر پورٹ سے اٹھا کر پینتالیس سے پچاس منٹ کی پرواز کے بعد اسلام آباد میں اتارتی ہیں۔۔۔۔
یہاں اس بات کی وضاحت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ یہ چند مسافر وہ لوگ ہیں جن کی جیب بخوشی اجازت دیتی ہے کہ وہ ہوا میں تیرتے جہاز میں بیٹھ کر اپنی منزلِ مقصود تک پہنچیں یا پھر وہ جو کسی انتہائی مجبوری کے عالم میں زمینی راستہ اختیار نہیں کرسکتے-بصورتِ دیگر لوگوں کی ایک کثیر تعداد بذریعہ بس شاہراہ قراقرم پہ قریباً سولہ گھنٹے کا زمینی سفر اختیار کرنے پر مجبور ہیں جو انہیں ایک تکلیف دہ مگرکم خرچ پہ مبنی متبادل راستہ فراہم کرتی ہے. اور یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے زریعے ملک کے اس دور دراز علاقے میں ہر طرح کی نقل و حرکت اور تمام تر اشیاء خورونوش کی بھی ترسیل ہوتی ہے۔۔۔
اب جب کہ حالیہ بارشوں نے گلگت بلتستان میں ہمیشہ کی طرح ہر طرف تباہی کے نشان چھوڑ دئیے ہیں اور تمام تر نظام درہم برہم ہو چکے ہیں تو اس بات کو کافی عرصہ گزرجانے کے باوجود حکومتی سطح پہ بےحسی کے نئےریکارڈ قائم کرنے کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے -افسوس اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ اب تک رابطہ سڑکیں نہ ہی بحال کی جا سکی ہیں اور نہ لوگوں تک خوراک کی ترسیل کا کوئی مناسب اور منظم بندوبست دکھائی دیتا ہے….جبکہ دور دراز کے کچھ علاقے تو ایسے ہیں جن کا رابطہ عام دنوں میں بھی علاقے کے باقی حصوں سے بمشکل رہتا ہےاور اس صورت حال میں وہاں کے مکین نہ صرف خوراک بلکہ ہر طرح کی پریشانیوں کا شکار ہیں
شہر کی بارونق دکانیں ویران دکھائی دیتی ہیں جبکہ آٹا، گیس اور تیل ایسی اجناس کا کہیں نام ونشان نظر نہیں آتا جبکہ سبزیاں اور دوسری اہم اشیا بھی خواب ہونے لگی ہیں –
میں بیٹھی یہ سوچ رہی ہوں کیا حکومت یہ سوچ کر مطمئن بیٹھی ہے کہ پہاڑ وں کی گود میں پلنے والے یہ سخت جان لوگ سیلاب کی زد میں آکر یا پھر کسی اور قدرتی آفت کا شکار ہو کر ہی مر سکتے ہیں …بھوک سے نہیں….! یہ بجلی، پانی، تیل ، گیس تو عیاشیاں ہیں….نہ بھی ہوں….برداشت ہی کرنا ہے ان کو…..ویسے بھی عام چلن ہے اس ملک کے عوام کا….سڑک پہ آئیں….آتے رہیں….نعرے بازی کریں…کرتے رہیں بھئی….کونسا حکومت ان آوازوں پہ کان دھرنے کو بےچین بیٹھی ہے….کوئی ٹائر جلائیں…ہلکا سا دھواں اٹھے…اٹھتا رہے…کس کی نظر دھندلانی ہے…..اخبار میں چھوٹی سی سرخی چَھپے….چَھپنے دیں….کہ صاحببانِ اقتدار کو ناشتے کی میز پہ کچھ اضافی مصروفیت بھی تو چاہئے …..
مجھے یہ بات بھی کھٹک رہی ہے کہ کب تک لوگ ٹولیوں کی شکل میں گورنر کے گھر کے سامنے مارچ، وزیر اعلٰی کے خلاف نعرے اور وزراء کے خلاف جذباتی تقاریر کرتے رہیں گے؟ اور کیا اس سے مسائل حل ہوں گے؟ کیا اس کے نتیجے میں کل یا پرسوں یا کبھی بھی گلگت بلتستان کے عوام کو بھوک اور ذہنی و جسمانی اذیت سے چھٹکارا ملے گا؟ اگر ایسے ہی یہ مسئلے حل ہونے ہیں تو میں ہمقدم ہوں…آپ کے !
مگر اتنا یاد رہے کہ یہ مسائل ایک دیرپا حل کے متقاضی ہیں – اور حکومت کو عوام کے ساتھ مل کر انہی خطوط پہ سوچنا ہے اور اقدامات اٹھانے ہیں-
بشکریہ پامیر ٹائمز