گلگت بلتستان کے پبلک سیکٹرزمیں خواتین کی ملازمتوں کے لئے 10سے 15فیصد کوٹہ مختص کیا جائے اور اس پر عمل درآمد کرایاجائے ،خواتین کو حراساں کئے جانے کے خلاف بنایا گیا 2010ء کے قانون پر حقیقی معنوں میں عملد آمد کروایا جائے اور ضابطہ اخلاق کو سرکاری و غیر سرکاری دفتروں میں آویزاں کرنیکی ہدایت کی جائے اورخواتین کے حقوق کے حوالے سے قومی سطح پر بنائے گئے تمام قوانین کو گلگت بلتستان تک توسیع دے کر ان پر عمل درآمد کروایا جائے ۔پیر کے روز ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے زیر اہتمام’’گلگت بلتستان میں کام کرنے والی خواتین کے لئے کام کرنے وانے والی جگہ پرکس طرح سازگار ماحول پیدا کیا جائے ‘‘کے عنوان سے ورکنگ خواتین کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں گلگت شہر میں کام کرنے والی خواتین نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ خواتین ٹاس فورس کی طرف سے تیار کردہ چارٹر آف ڈیمانڈپر عمل درآمد کیلئے قانون ساز اسمبلی کی خواتین ممبران یا حکومتی ذمہ داروں مشتمل کمیٹی بنا کر اس کو ذمہ داری دی جائے کہ وپ حکومت کے مقرر وقت پر ان مطالبات جت تکمیل کے لئے مختلف اداروں کی مدد سے اپنا کردار ادا کریں۔اس موقع پر پالیمانی سیکریٹری برائے قانون اورنگزیب ایڈووکیٹ نے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس قرار داد کو ماہر قانون سے مشاورت کرکے اور بل کی شکل دے کر 30دنوں کے اندر اندر عمل درآمد کروانے کی کوشش کرتا ہوں جو کہ یہ ایک اہمیت کے حامل قرار داد ہے ۔انہوں نے کہا بلدیاتی اداروں میں خواتین کے کوٹہ دینے کے حوالے سے قانون سازی کی جارہی ہے اور غیر ت کے نام پر قتل کے روک تھام کے حوالے سے بھی ایک بل تیا ر کیا جارہاہے جن کو بہت جلد اسمبلی میں پیش کرکے قانونی شکل دی جائے گی ۔انہوں نے کم عمری میں شادی کے بل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جب اس حوالے سے اسمبلی میں بل پیش کی تو مجھے کافر قرار دے کر اس بل کو نہ صرف اپوزیشن اراکین نے بلکہ حکومتی بنچوں پر بیٹھے ہوئے ممبران نے بھی سخت مخالفت کی جس پر وہ بل پاس نہیں ہوسکا ہے ۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو اپنے آپ کو مظلوم بنانے کی بجائے ہمت سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔اس موقع پر سابق صوبائی وزیر اطلاعات سعدیہ دانش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد مردوں کے خلاف نہیں بلکہ اس سوچ کے خلاف ہے جو عورتوں کو گھر سے باہر نکل کر کام کرنے سے روکتی ہے ۔انہوں نے کہا ہمارے دور میں چلڈ پروٹیکشن بل سمیت کہیں بلات پاس ہوئی ہیں لیکن انتظامیہ عمل درآمد کروانے میں ناکام ہوئی ہے ۔سعدیہ دانش کا کہنا تھا پاکستان پیپلز پارٹی نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے قومی اور علاقائی سطح پرجتنا کام کیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے اور قانون ساز اسمبلی میں سب سے زیادہ پیپلز پارٹی کے دور میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بل پاس کئے گئے ہیں ۔انہوں نے اجلاس کی شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو صروف دفتروں اور دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی آنے کی ضرورت ہے اور جو بھی خاتون اس شعبے میں آئے گی میں اس کو انرج کرونگی ۔اس موقع پر ہیومن رائٹس کمیشن آ ف پاکستان گلگت بلتستان کے کورڈینیٹر اسرارالدین اسرار ،آغاخان رورل اینڈ سپورٹ پروگرام کی نمائندگی کرتے ہوئے یاسمین کریم اور عزیز علی داد نے بھی خطاب کیا ۔اجلاس میں خواتین پولیس ،خواتین ڈگری کالج کے اساتذہ ،قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی ،پین نیٹ ورک ودیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی ورکنگ خواتین نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔