تحریر: ابرار حسین استوری
گلگت بلتستان کی عوام اقتصادی راہدری منصوبے کے خلاف نہیں اس کے طریقہ کار کے خلاف ہیں ۔پاکستان کے لئے اقتصادی راہداری منصوبہ کی اہمیت اور سر زمین گلگت بلتستان کی احساس محرومی ہر زی شعور رکھنے والے کے علم میں ہے۔ایک طرف تو پورے ملک سمیت گلگت بلتستان میں جشن آزادی پاکستان جوش و خروش سے منایا گیاتو دوسری طرف حقوق سے محروم گلگت بلتستان کی عوام نے اس اعظیم ملک پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لئے دعائیں بھی کی اور ادھورا جشن آزادی پر حکمرانوں سے شکوے بھی کئے۔اچھا دن ہو یا برا دن گلگت بلتستان نے ہر وقت پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑی ہیمگر پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے نظر انداز کرنا لمحہ فکریہ ہے اس کی ایک کڑی گزشتہ عرصے سے اقتصادی راہداری منصوبے میں یکسر گلگت بلتستان کو نظر انداز کرنا ہے۔یوں تو قیاس آرائیاں آسمان کی بلندی چھو چکی ہیں مگر انتظار اور صبر کا دامن گلگت بلتستان کی عوام نے نہیں چھوڑا ہے۔پورے پاکستان سمیت دنیا بھر میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ عروج پر پہنچ چکا ہے ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ملکی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے اہم فیصلے کئے جسکا تمام تر کریڈیٹ پاک آرمی اور جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے۔اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے ایک طرف تو بھارت نے ایران کے ساتھ چاہ بہار بندرگا ہ کی تعمیر کے منصوبے پر دستخط کئے تو دوسری طرف را ء کے ایجنٹوں کے زریعے کھبی بلوچستان میں تو کھبی خیبر پختونخواہ میں نام نہاد سیاسی لیڈروں کو ورغلا یا اور اس منصوبے کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کروایا تو کھبی یہ تاثر بھی دیا گیا کہ اقتصادی راہداری میں بنے والے تمام منصوبے صرف پنجاب کے لئے ہونگے اور تمام ترقیاتی بجٹ بھی پنجاب پر خرچ ہو گا۔اسی طرح پاکستان کے ان دشمنو ں نے کھبی کسی صوبے یا کھبی کسی علاقے کی عوام کو غلط گائیڈ کر کے اس منصوبے کے خلاف سازشیں کی گئی مگر محب وطن قوم نے ہر اس سازش کو ناکام بنایا جس کی وجہ سے پاکستان کی ترقی میں خلل پیدا ہواور اس منصوبے کو ناکام بنایا جائے۔آفرین ہو پاک فوج اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف جنہوں نے ہر ایک سازش کو ناکام بنانے میں اپنا اہم کردار آدا کیا۔یوں تو تقریبا ہر سازش ختم ہو چکی ہے مگر گلگت بلتستان کی عوام جو 69سالوں سے آئینی اور بنیادی حقوق سے محروم ہیں ان پر ایک اور نانصافی کا بم گرانے کی پلانگ جاری ہے۔کرپٹ ھکمران اور اشرفیہ اس سازش کے تحت اپنی سیاسی دکان چمکانے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے طریقے سے سازش کرنے کی فول پروف سیاست جاری ہے۔حکومتی اراکین چاہیے وہ وفاقی ہو یا صوبائی بس ایک ہی مقصد کے تحت کام کر رہے ہیں کہ گلگت بلتستان کو احساس محرومی کے جہنم میں ہی رکھ کر اس منصوبے کو مکمل کیا جائے ۔جبکہ اپوزیشن بھی دو حصوں میں تقسیم نظر آرہی ہے ۔ما سوائے کچھ وفاقی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے گلگت بلتستان کے لیڈروں اور قوم پرست جماعتوں کے علاوہ باقی سبکو چھپ لگی ہوئی ہے۔گزشتہ دنوں مشاورت کے لئے وفاق سے آئے ہوئے سینٹرز پر مشتمل اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں خوب گرما گرمی رہی خاص طور پر ایم کو ایم کے سینٹر نے اعتراضات لگائے جس پرصرف پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر امجد ایڈوکیٹ نے کھری کھری سنا دی اور کہا کہ اقتصادی راہداری کا روٹ گلگت بلتستان کے سینے کو چیئر کر بنایا جا رہا ہے اور یہاں کی عوام کو چلو بھر بھی شراکت داری نہیں دی جا رہی ہے ۔ساری ھول مٹیہ تو ہمارے نصیب میں کر کے فائدے آپ آٹھائینگے۔اور اگر ایسا ہی ہوا تو گلگت بلتستان میں عوامی تحریکیں جہنم لینگی جس کے زمہ دار حکومت وقت پر عائد ہوگی۔خیر یہ تو اجلاس کی بات تھی اصل حقائق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔وفاقی اور صوبائی حکومت اتنا بڑا منصوبہ کرنے جا رہی ہے اور سوچ اتنی چھوٹی جو گلگت بلتستان کے غریب اور محروم عوام کا مداواہ نہ کر سکے۔ایک بات کسی سے عیاں نہیں کہ گلگت بلتستان پاکستان اور چین کے درمین پل کی مانند ہے اس پل کی مظبوطی سے ہی دونوں ممالک کی بہتری اور ترقی جوڑی ہوئی ہے۔گلگت بلتستان کی عوام ہو یا لیڈرز کوئی بھی اس منصوبے کے خلاف نہیں صرف اپنا حق مانگتے ہیں تاکہ یہاں کی عوام کو بھی فائدہ مل سکے۔گلگت بلتستان کی عوام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے جس قوم نے یہ خطہ خود آزاد کرا کر پاکستان کو بطور تحفہ پیش کیا وہ قوم آج بھی پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لئے ہر قربانی سے دریخ نہیں کریگی۔