تحریر: سید عبدالوحید شاہ(ڈائریکٹر جنرل گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی)
گلگت بلتستان کو رب زوالجلال نے جہاں بے پناہ قدرتی وسائل اور رعنائیوں سے نوازا ہے ، وہیں پہاڑوں کے دامن میں واقع اس خطے میں قدرتی آفات کا بھی خطرہ ہمیشہ سے لاحق رہا ہے، ان قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے حکومت اورمختلف فلاحی ادارے نہ صرف سرگرم عمل ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح ان آفات کے نقصانات کو کم کرنے کیلئے بھی بھر پور اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں ، 2005میں کشمیر اور ہزارہ ڈویژن میں ہولناک زلزلوں کی تباہ کاریوں کے بعد حکومت پاکستان نے NDMA کی داغ بیل ڈالی، اوراس ادارے کو ملک کے تمام صوبوں تک پھیلایا،گلگت بلتستان میں یہ ادارہ2007 سے 2009 تک محکمہ داخلہ کے زیر انتظام کام کرتا رہا ، تین سال بعد اسے اتھارٹی کا درجہ دیا گیا اور اس کے بعد گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی نے گلگت بلتستان میں باقاعدہ سرگرمیوں کا آغاز کردیا ۔2016 میں اس ادارے کا باقاعدہ انتظامی ڈھانچہ وجود میں آیا جس میں ڈائریکٹر جنرل، ڈپٹی ڈائریکٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کا تقرر عمل میں لایا گیا، اور اسی سال ادارے کی طرف سے ضلعی سطح پر اپنے وجود کو مستحکم کرنے کی خاطر اسسٹنٹ ڈائریکٹرزکو ضلع و ڈویژنل ھیڈکوارٹر میں منتقلی کا بندوبست کیا گیا ۔
گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے صوبہ کے بدترین آفاتی ادوار میں اپنی بساط اور استطاعت سے بڑھ کر عوام الناس کی خدمت کی اور اپنی حیثیت کوخوب منوایا، خواہ وہ عطاآباد جھیل کے تناظر میں پیدا ہونے والے مسائل ہوں2010کا سیلاب ہو یا 2015کا ہولناک زلزلہ ہو،ادارہ اپنے محدود وسائل کے باوجود ہمہ تن مصروف عمل رہا اور عوام الناس کی دہلیز پر آسائش و سہولت مہیا کر تا رہا۔ سال 2016 ، ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی کیلئے ساخت اور تشخص کا سال رہا ۔ اس سال نہ صرف افرادی قوت کو مکمل کیا گیا، بلکہ استعداد کا ر اور طریقہ کار کا عملی ڈھانچہ بھی معرض وجود میں لایا گیا۔ بذیل اقدامات اس امر کا قطعی و عملی ثبوت ہیں اور ادارے کی خوشحالی و فعالی کیلئے نوید بھی۔
ادارہ ہذا کے قیام سے لے کر امسال تک GBDMAفقط چند عارضی و غیر مستقل افراد پر مشتمل ایک معمولی سی جماعت کا نام تھا جوکہ مخصوص عرصہ کیلئے تعینات ہوتے اور کچھ عرصہ بعد ہی تبادلہ ہوجاتا۔ ادارہ کی مستقل اور ٹھوس بنیادوں کیلئے لازمی تھا کہ شفاف ترین طریقے سے ممبران کی تعیناتی کی جائے اور افیسران عہدہ کے علاوہ ماتحت عملہ بھی حسب ضرورت لیا جائے تاکہGBDMAکی دوسرے اداروں پر انحصاری ختم کی جاسکے، چنانچہ اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے NTSکو اعلیٰ عہدوں کیلئے افیسران کے انتخاب کیلئے ہدف دیا گیا اور ماتحت عملہ کو صوبائی کمیٹی نے بھرتی کیا۔جنکی تربیت و تعلیم کیلئے تمام افراد کو گاہے بگاہے مختلف النوع پروگرامات میں شریک کرواکر اور NDMAکے ادارہ NiDMکے علاوہ صوبائی محکمہ یعنی PDMAکا تفصیلی دورہ کروایا گیا اور اس طرح موجودہ دور کی بہترین عملی روایات و تربیت سے آشکار کروایا گیا۔ علاوہ ازیں ملکی و غیر ملکی NGOsکے ساتھ معاہدوں کے تحت تربیت کیلئے ہمہ وقت پروگرامات جاری ہیں جن میں حفاظتی تدابیر سیکھنا، بنیادی طبی امداد کے علاوہ عوام الناس میں شعور آگاہی پھیلانے کیلئے ادارہ کا کردار وغیرہ شامل ہیں۔
اس ضمن میں یہ مذکور کرنا لازمی ہے کہ WFPکے تحت گوداموں کی تر تیب تناسب اور تنصیب پر تفصیلی تربیت گاہ کا اہتمام بھی کیا جاچکا ہے، اور اس طرح سے سامان کے ضیاع کی روک تھام ، اس کے حسن اہتمام جیسے احسن طریقوں سے آشنائی بھی بہم پہنچائی گئی۔ ادارے نے اپنا انجینئرنگ شعبہ قائم کیا تاکہ بروقت منصوبہ جات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ معیار اور ضرورت کو مد نظر رکھا جائے۔ انجینئر نگ شعبہ کے سربراہ ADکو جاپان سے ڈھائی ماۂ کی تربیت دلائی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ تمام اضلاع سطح پر کاموں کا جائزہ لینے کیلئے اس وقت GBDMA کی ٹیمیں برسر پیکار ہیں۔امسال ہی یہ بھی ممکن ہوا کہ ادارہ کے اندرمکمل باضابطہ کنٹرول روم قائم کیا جائے اور گوگل کے ذریعے سے متاثرہ علاقوں کا نقشہ حاصل کیا جاسکے۔ اس حوالے سے شعبہ ITکے سربراہ ADکو NUSTیونیورسٹی سے مکمل کورس کروایا گیا اور وہاں سے وہ سوفٹ ویر بھی حاصل کیا گیا جس سے متاٖثرہ علاقوں پر نظر رکھی جاسکے اور HQگلگت میں بیٹھ کر بھی کسی بھی علاقے کی سیٹلائٹ تصاویر صرف 15میٹر کے فاصلے سے لی جاسکیں، جو کہ بلا مبالغہ ایک بہت بڑا قدم ہے۔ اس کے علاوہ کنٹرول رو م میں 500سے زائد رضاکاروں کے فون نمبرز موجود ہیں اور زیر رابطہ ہیں جو کہ صوبے کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ہمہ وقت معلومات کے ساتھ ساتھ وہاں کی آبادی کا تمام ڈیٹا بصورت معلومات فراہم کرتے ہیں اور علاقے کی موسمی صورتحال سے آگاہ رکھتے ہیں۔وزیر اعظم پاکستان نے 2015میں اپنے دورۂ سکردو کے دوران ہر طرح کی بھاری مشینری کی خریداری کی اجازت دے کر اس کیلئے وفاق سے فنڈز دینے کی منظوری بھی دی۔ سن 2016-17امیں شفاف طریقہ کار کو اپناتے ہوئے 72کروڑکی مشینری کی خریداری جاری ہے، جسمیں بیشتر مشینری غیر ملکی بالخصوص جاپان کی صنعتوں سے حاصل کی گئی ہے ۔ بھاری مشینری میں بلڈوزر، ٹریکٹرز، Excavators کے علاوہ دستی ڈرلنگ مشین شامل ہیں جوکہ بوقت ضرورت بین الاضلاعی راستوں کو کھولنے کے کام آسکیں گے، امسال مشینری کی خریداری دراصل بہت بڑا تاریخی قدم رہا۔GBDMA کے اپنے وسائل کا کوئی ذریعہ نہ تھا ، وزیر اعظم پاکستان کے حکم کی تعمیل میں امسال پورے کوائف مکمل کرتے ہوئے ایک ایسے فنڈ کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کے تحت اب ادارے کے پاس ایک خطیر رقم ہمہ وقت موجود رہیگی اور اس کے منافع سے متاثرین کی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کیا جاسکے گا۔ یہ فنڈابتدائی طور پر 19کروڑکی رقم سے عمل میں لایا گیا۔ یہ فنڈ ادارے کی ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھے گا۔ سالانہ بنیادوں پر اس میں وفاقی اور صوبائی حکومت اضافہ کرتی رہیگی، جس کی بنا پر یہ خطیر رقم پر مشتمل فنڈ آئندہ چند ہی سالوں میں صوبائی محکمہ کو خود کفیل بنادے گا۔ پہلی بار GBDMA نے مختلف فلاحی اداروں کی طرف سے تربیت یافتہ سول سوسائٹی کے لوگوں کو اپنے نیٹ ورک میں لا کر ہزاروں کی تعداد میں رضاکاروں کی فہرست مرتب کی ہے۔ ان تمام افراد کے فون نمبرز اور علاقوں کی نشاندہی بذریعہ نقشہ اجمالی اب GBDMA کے HQمیں موجود ہے اور ان سے کسی بھی وقت بصورت ایمرجنسی رابطہ کر کے معلومات لی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ریلیف کے کاموں میں ان کی معاونت اور بصورت منقطع روڈ وغیرہ بھی ان رضا کاران سے مربوط رابطہ سے علاقہ کی صورتحال اور ضروریات سے واقفیت مل جاتی ہے۔ اس طریقے سے یہ تمام افراد حصہ سرکار بن کر GBDMA کیلئے ممدو معاون ثابت ہوئے ہیں۔
GB کی جغرافیائی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے امسال تقریبا تمام اضلاع سطح پر GBDMA نے ریلیف کیلئے گودام بنا لئے اور ان گوداموں میں قبل از وقت ہی ہر طرح کا سامان ریلیف پہنچا دیا ہے جن میں کمبل، راشن، خیمہ جات کے علاوہ بنیادی طبی امداد کا سامان شامل ہے۔ اس طرح اب دوردراز علاقوں میں بوقت آفت کسی قسم کی خوراک کی قلت یا طبی یا وبائی امراض کی شکایت کا بدرجہ اتم تدارک کیا جاسکے گا، ان گوداموں کے علاوہ GBDMA نے کم از کم 2کنال اراضی بھی ڈویژنل HQ میں حاصل کر رکھی ہے تاکہ بوقت ضرورت ان پر بھی بڑے گوداموں کی تعمیر و تنصیب ہوسکے، اس وقت GBDMA کے تحت سکردو ،گھا نچھے ، استور ، دیامر، ھنزہ، نگر، غذر اور گلگت میں گودام موجود ہیں اور ان کے سٹاک کا معائنہ بھی ہر ماہ جاری رھتا ہے۔ادارہ نے سامان کی ترسیل کیلئے ٹرک خرید لئے ہیں تاکہ بوقت آفت سامان کی ترسیل کیلئے آسانی رہے۔ اس کے علاوہ اس وقت سکردو، گلگت اور استور میں بھاری مشینری موجود ہے تاکہ کسی بھی قسم کی آفت سے نمٹا جاسکے۔مناور کے مقام پرادارے کی عمارت کیلئے زمین کی الاٹمنٹ اس کی بنیادی درستگی کے ساتھ ساتھ عمارتی نقشہ اور دیگر کوائف کی تکمیل مکمل ہو چکی ہے۔ 2016 میں محکمہ تعمیرات عامہ کے تحت ٹھیکدار کو اس عمارت کی تعمیر کیلئے ٹھیکہ دے دیا گیا ہے۔ 2016میں پہلی بار DC/DDMAsکو خطیر رقم کی ادائیگی ممکن بنائی گئی جس کے طریقہ کار کو تفصیلی طور پر وضع کیا گیا تھا، جس کے تحت متعلقہ ضلع کی مقامی کمیٹیاں باہمی مشورہ سے ان تمام علاقوں کی نشاندہی کرکے رپورٹ و تجاویز مرتب کرتے ہیں جہاں حفاظتی کاموں کی تکمیل و تعمیر کی اشد ضرورت ہو۔اور اس دی گئی رقم سے ان تمام کاموں کو مکمل کیاجاتا ہے اور اس طرح بھاری نقصان اور ازاں بعد بھاری معاوضہ جات کیلئے رقم ضائع ہونے سے بچ جاتی ہے اور یوں حفاظتی اقدامات میں کسی بچاؤ بند کی تعمیر، کسی شگاف کی بھرائی، کسی نالہ جات کی توسیع یا کھدائی وغیرہ شامل ہے۔MHVRA (مختلف آفات کی پیش بندی)اورکمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم منصوبے کیلئے حکومت پنجاب نے فنی تکنیکی معاوت دی ہے اور PC-Iکی تیاری کروائی ہے۔ حکومت GBنے اس PC-Iکی منظوری دی ہے ،جس کے تحت اب 6اضلاع کا MHVRAہوگا ۔گزشتہ سال کے تمام جانی نقصانات کا تخمینہ لگا نے کے بعد DC و کمشنر کی تصدیق سے GBDMA نے معاوضے متاثرین میں تقسیم کردیے۔
2016 کے اوائل میں GBDMA کو سخت طوفانی بارشوں کا سامنا کرنا پڑا جن سے پورا صوبہ متاثر ہوا۔ ادارہ اس آفت سے بہت عمدگی سے عہدہ برآہوا اور بر وقت تمام معاملات کو بحسن خوبی سرانجام دیا۔ادارہ ہٰذاکے پرچم تلےDRR فورم کا قیام عمل میں لایا گیا۔جس کے مقاصدمیں ہر NGOکے طریقہ کار اور دائرہ کار کا تعین کرنا،کام کرنے کی سہولیات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ باہمی ہم آہنگی اور تقسیم کار کو مد نظر رکھنا،علاقہ جات کی تقسیم برائے فراہمی معلومات، تقسیم ریلیف، اور دیگر امور کی نگرانی، مون سون کے دوران ہر پندرہ روزہ اجلاس، افرادی ومالی وسائل کا باہمی تبادلہ وغیرہ شامل ہیں۔اس فورم میں فوکس، الخدمت فاونڈیشن،اے کے آر ایس پی، ہلال احمر، ڈی پی اے پی اور دیگر فلاحی اداروں کی نمائندگی موجود ہے،اس فورم کے قیام سے مستقبل میں گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کی آفت کے دوران اقدامات میں آسانیاں پیدا ہونگی۔
ادارے کو ایسی مضبوط بنیادیں فراہم کرنے میں وزیراعلٰی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحما ن صاحب،چیف سیکرٹری جناب طاہرحسین صاحب اور سیکرٹری محکمہ داخلہ جناب احسان بھٹہ صاحب کا اصل کردار و عمل رہا۔جس کے لئے ادارہ ان سب حضرات کا ہمیشہ ممنون رہے گا ۔