میمونہ عباس خان
ایک عرصے سے یہ آنکھیں بنجر پڑی ہوئی ہیں۔ ان میں ہلکورے لیتا ہوا جھیل کا پانی اب خشک ہو چلا ہے۔چند ادھورے خواب اس ویرانے میں اب بھی اس آس پر بھٹک رہے ہیں کہ کبھی نہ کبھی تو یہ خشک سالی ختم ہوگی اور دل کی سرزمین پر پڑےخواہشوں کے ادھورے گھڑے پانیوں سے بھر جائیں گے اور دل کی وادی سیراب ہوگی۔ پھر وہی نمی ویرانیوں کی گذرگاہوں سے اپنا رستہ آپ بناتی کسی روز اُن بنجر آنکھوں کو اک نئی زندگی کی نوید دینے آ پہنچے گی –
مگر!
دل کی دھرتی یوں آسانی سے بھلا کب سیراب ہوئی جاتی ہے؟وہاں پر تو مدتوں سے ایک انوکھی کیفیت طاری ہے-ایک انجان دکھ کی پرچھائیوں نے ہر سوایسے قبضہ جما رکھا ہے گویا گھنےاور کالے بادلوں نے آسمان کی روشن نیلاہٹوں پر سایہ کر رکھا ہو- انہی بادلوں کے سبب تاریکی ہے کہ بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یہ بادل سایہ فگن تو ہیں ضرور مگر کھل کر برسنے سے منکر!
گویا بادلوں نے ٹوٹےخوابوں کی کرچیوں سے جڑی ہوئی، دل میں پنپتی اذیت کو جوان رکھنے کی ایک دلنشین ترکیب ڈھونڈ نکالی ہے ۔اور دل کی سوکھی دھرتی سیراب ہونے کی شدیدآرذو لیے اور گہری ہوتی گھٹا کو آس بھری نگاہوں سے تکتی ،مانندِ مرغِ بسمل تڑپتی چلی جا رہی ہے کہ کب وہ گھڑی آئے جب یہ برسات اُس کی دھڑکنیں رواں رکھنے کے ساتھ روح پر پڑی دھند کی دبیز تہہ بھی بہا لے جائے۔ مگر روح پر پڑا بوجھ بھی تو کچھ کم نہیں ہے کہ روح خود بھی زندگی کی آس میں بلکتے دل سے مستعار لیے گئے گھنیرے کالے بادلوں کواوڑھ کر، خود کو پوشیدہ رکھ کر دور کہیں اس امید اور آس میں ڈول رہی ہے کہ بادلوں کا یہ سایہ کبھی تو دل کی بنجردھرتی پر کچھ ایسے برسے گا کہ جیون دوبارہ انگڑائیاں لے کر اٹھے ۔اور پھر ایک دن یہ نمی ان ویرانی بھرے، بے رنگ و نور آنکھوں میں دور تلک پھیلتی چلی جائے تو جل تھل کا ایسا دلربا سماں ہو جس کی منزل کسی بہار کی آمد کا پیام ٹھہرے۔
مگر کیا یہ نمی اُن آنکھوں میں چھپی آخری سانسیں لیتی خوابوں کا بھی مقدر بنے گی جو کبھی زیست کو عنوان دیا کرتی تھیں؟ یا پھر بے مول قطروں کی صورت یوا میں تحلیل ہوگی۔
بس یہی خوف چین کا سانس لینے نہیں دیتا کہ اگر یہ نمی ان نا آسودہ خوابوں کا مقدر نہیں بن پائی تو پھر یہ آنکھیں کہیں ان کا مدفن نہ بن جائیں۔ پھر اس دل کو آسودگی اور روح کو سرشاری کبھی نہیں مل پائے گی۔
تو کیا یہ خواب مرجھاتے مرجھاتے ایک دن یوں ہی مر جائیں گے؟ یہی سوچ کر میری سانسیں رکنے لگتی ہیں کیونکہ خواب کبھی مرنے نہیں چاہئیں چاہے ان کی نمو کے لیے آنکھوں کو رم جھم برسنا بھی پڑجا ئے۔اور پھر میرا یہی ماننا ہے کہ خواب بھلے سسکتے رہیں، چاہے ادھورے رہیں مگر آنکھوں میں بسے رہیں کہ ان آنکھوں کو ٹوٹے خوابوں کی کرچیوں کی چبھن کے سوا کھلنے کی عادت جو نہیں ہے۔۔۔۔