کفایت حسین ایلیا✍
دنیا کے سیکولر نظام هائے سیاست نے یہ تصور ہر عام و خاص کے ذہن میں راسخ کر دیا هے بطور خاص آج کی نوجوان نسل young generation جو کالجز ،یونیورسٹیز اور مختلف جدید عصری تعلیمی اداروں سے زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر معاشرے میں کسی شعبے میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں یا پهر آج کسی عصری educational institute میں زیر تعلیم ہیں ان نوجوانوں کی اکثریت کا یہ ماننا هے کہ دین کا سیاست سے اصلا نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی تعلق ہونا چاہیئے کیونکہ بقول انکے سیاست تو ایک گندی شے هے اور علماء کرام کو اس کے نزدیک جانا تو درکنار بلکہ اسے اپنے حجرے کے کسی جهروکے سے جهانک کر بهی دیکهنے کی زحمت نہیں کرنی چاہیئے .بلکہ اسے معاشرے کے بے دین اور سیکولر اور دین سے پرلے درجے کے بے گانہ لوگوں کے ہاتهہ میں ہونا چاہیئے تاکہ معاشره کی زمام و لگام پرے درجے کے بے لگام لوگوں کے هاتهہ میں رهے .یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم هے کہ معاشرے کی بهاگ ڈور دیندار ،دین شناس ،دین کا علم رکهنے والے افراد کے هاتهہ میں ہونا چاہیئے یا پهر دین سے پرلے درجے کے بیگانوں کے هاتهہ میں .اس بات پہ روشنی ڈالنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا هے کہ پہلے دین اور سیاست کا ایک مختصر اور اجمالی سا جائزه لیا جائے اسکے بعد دین و سیاست کے تعلق کو واضح کیا جائے دین کے لغوی معنی جزا و التزام کے ہیں جیسے کہ آپ ص سے مروی حدیث میں آیا هے (کما تدین تدان ) یعنی جس سیرت و عقیدے کے تم پابند ہونگے قیامت کے دن اسکی جزاء ملے گی اور اسکے مطابق آپکا محاسبہ کیا جائے گا . مذکوره معنی دین کا literal meaning لغوی معنی هے البتہ اسکا ایک termenalogical meaning اصطلاحی معنی هے جسکے مطابق دین doctorine عقیده ،conceptions مفاهیم احکام instructions or orders جو ایک مذهب اپنے دامن میں لیئے ہوئے هے مفاهیم conceptions میں تمام شعبہ هائے زندگی سے تعلق رکهنے والے تصورات اور افکار thoughts شامل ہیں جن میں سے ایک شعبہ سیاست بهی هے پس دین مختصر طور پر منشور حیات هے charter of life یا مکمل ضابطہ حیات complete code of life ہے جس چارٹر کے اندر محص دفن و کفن ،تجهیر و تکفین ، نکاح و طلاق اور دیگر چند اخلاقی تعلیمات یا افکار و اذکار moral retuals نہیں بلکہ ہر دور کیلیئے اور ہر دور کے تقاضوں need of time سے ہم آہنگ درخشاں تعلیمات موجود ہیں جو تمام شعبہ هائے زندگی پر محیط هیں ان شعبہ هائے زندگی میں سے ایک شعبہ سیاست بهی هے جسکے بارے میں دین کی مکمل تعلیمات instructions موجود ہیں . پس دین جو کہ ایک مکمل منشور حیات هے جس میں سیاسی شعبے سمیت زندگی کے تمام پہلووں کے حوالے سے دینی رہنمائی guideline موجود هے . اسکا مطلب یہ ہوا کہ سیاست دین کا ایک اہم ترین جز هے اور یہ سیاست politics دین سے کسی بهی طور جدا نہیں . دین کے حوالے سے ایک مختصر سے بیان discriptiption کے بعد اب ذرا سیاست پہ کچهہ روشنی ڈالیں ، سیاست politics یعنی معاشرے کو چلانے کے طور طریقے یا یہ کہ معاشرے کو اس طرح منظم کیا جائے کہ اسکی ترقی و پیشرفت یقینی ہو سکے اور معاشرے کے تمام مصالح اور ضروریات یوری ہو سکیں . پس سیاست ملک و ریاست کو چلانے اسکے امور کو تنظیم کی لڑی میں پرو کر ایک خوبصورت مہکتے ہوئے گلدستے کی شکل دینے کا نام هے. دین و سیاست پر بلکل اجمالی اور مختصر سی روشنی ڈالنے کے بعد اب اس بات پہ بهی روشنی ڈالنا ناگزیر هے کہ دین و سیاست کا باہمی تعلق کیا هے ؟ دراصل دین ہر دور میں ہر معاشرے کی رہنمائی guidance کیلیئے آیا هے یعنی دین انسان سے یہ چاہتا هے کہ اسکا رخ خدا کیطرف ہو کیونکہ اس انسان کو خدا نے پیدا کیا هے اور وہی اسکا خالق و مالک هے خدا نے انسان کو خلق کرنے کے بعد اسے بے لگام نہیں چهوڑا بلکہ اسے یہ بتا دیا هے کہ وه کس طرح زندگی گزارے اسکلیئے خدا نے اسے باقاعده منشور زندگی اور قانون حیات عطا فرمائی انفرادی individual اور اجتماعی collective life کے واسطے واضح احکامات instructions بیان فرمائے . دین اسلام نے معاشرے سے الگ تهلگ ره کر زندگی گزارنے سے منع فرمایا اسکے بر عکس معاشرے میں ره کر معاشرتی سر گرمیوں ،معاملات زندگی میں مثبت فعالیت دکهانے کی حوصلہ افزائی فرمائی . ہمارے بہت سارے نوجوان اتنے پڑهہ لکهہ جانے کے بعد بهی بڑی مان کے ساتهہ یہ کہہ جاتے ہیں کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور تعلق نہیں ہونا چاہیئے اور بعض جوان یہ سوال کر بیٹهتے ہیں کہ دین دار لوگ سیاست کیوں کرتے ہیں کیونکہ سیاست تو دین دار لوگوں کے شایان شان نہیں هے. ہمارے نوجوانوں کا یہ معصومانہ سوال اپنی جگہ اس لیئے بهی درست هے کیونکہ شروع ہی سے انکے اذهان میں سیاست کی تعریف اور اسکا مفهوم یا تو واضح نہیں ہوتا یا پهر سیاست کی غلط تعریف انکے اذهان میں بٹها دی گئی ہوتی هے دراصل سیاست کے اس غلط تصور کی وجہ سے جو انکے اذهان بٹهایا گیا هے ہمارے اکثر نوجوان سیاست کو دیندار طبقے کیلیئے شجره ممنوعة سمجهہ بیٹهتے ہیں اور دین کو سیاست سے جدا سمجهتے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں سیاست کی تعریف معاشرے کو تنظیم کی لڑی میں پرونے تا کہ اسے شاه ترقی پہ گامزن کیا جا سکے ،،اس تعریف کے بجائے سیاست کو منافقت ،منافرت،فراڈ ،کرپشن ، ڈکیتی ، غنڈه گردی ، بغاوت ،شر پسندی اور اس قبیل کے منفی معانی پہنائے جاتے ہیں اس منفی اور گندی تعریف کی وجہ سے لوگوں کو سیاست ایک گندی چیز نظر آنے لگتی هے. لیکن سیاست تو معاشرے میں عدل و انصاف ،مساوات، مال کی عادلانہ تقسیم ،رواداری ، اخوت ، شجاعت ،وفا اور اعلی انسانی اقدار کو فروغ دینے سے عبارت هے. اور دین کا سیاست سے خاص طور پر اسلیئے بهی تعلق هے کہ اسلام غاروں اور پہاڑوں جا کر چهپنے والوں کیلیئے نہیں آیا بلکہ اسلام تو معاشرے کو خدا کے قریب کرنے کیلیئے لیکن سوال یہ هے جب معاشرے کی باگ ڈور سمبهالنے والے دین دار ، بے داغ ، شجاع ،بہادر ،عادل ،پاکیزه ، دین سے آشنا بلکہ اس سے بهی بڑهہ کر دین کو گہرائی سے جاننے والوں کے حوالے کرنے کے بجائے ، کرپٹ ،بے دین ، دین سے ناآشنا ، شرابی ،زانی ، چور ، اقربا پرور دوست نواز اور دین سے بیگانہ ہو کر ہر قسم کی قید بند سے آزاد ہوں تو اس معاشرے کا کیا ہوگا وہی نا جو موجوده حکمران کی شکل میں ہم ملاحظہ کر رهے ہیں بقول شاعر ہر شاخ پہ الو بیٹها هے …..انجام گلستاں کیا ہو گا لهذا politics and religion میں چولی دامن کا ساتهہ هے
کیونکہ دین معاشرے کو خدا کے قریب کرنا چاہتا هے جو سیاست کے بغیر ممکن نہیں اگر دین سیاست سے جدا رهے تو معاشره چنگیزیت میں تبدیل ہو جائے گا مطلب یہ کہ معاشرے میں یذید صفت لوگ مسلط ہونگے نتیجتا معاڑے ظلم و جبر ،ناانصافی ،بد عنوانی ، بد امنی ،بے دینی کا دور دوره ہو گس سگر معاشرے میں دین کا غلبہ ہو گا تو معاشره دینی و دنیاوی ہر حوالے سے ترقی کی شاہره پہ گامزن ہو سکے گا اگر بے دین لوگ معاشرے میں آ کر مادی ترقی materialistic progress کا بهی باعث بن جائیں تب بهی بے دین اور سیکولر حکمران ruling class معاشرے کو خدا سے قریب نہیں کر پائے گا کیونکہ وه دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں سمجهتا .پهر دین ہی کا معاشرے پر غلبہ ہونا چاہیئے کیونکہ دین دنیا اور ما بعد الدنیا دونوں میں کامیابی کو اہم سمجهتا هے جبکہ سکولریزم صرف ایک پہلو یعنی دنیا کو ہی اہم سمجهتا هے اور ایک مسلمان کیلیئے یقینا صرف دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت میں کامیاب ہونا مقصود و مطلوب هے اور یہ کام محص دین و سیاست کے تعلق سے ہی انجام پا سکتا هے سیکولریزم دین و دیاست کی جدائی اپنانے سے آخرت داو پہ پڑ جائے گی