ہمیں ٹیلی ویژن پر ہی حافظ سعید صاحب کو دیکھنے کا شرف حاصل ہے جو ضلع شیخوپورہ کے علاقے مرید کے میں اپنے گھوڑوں پر سواری کرتے ہوئے فرمارہے تھے کہ دشمن کے خلاف جنگ کے لیے ہمیشہ اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم ہے۔ کچھ ایسا ہی پچھلے عشروں میں پوٹھوہار سے محترم اکرم اعوان صاحب بھی کرتے اور کہتے دکھائی دیے تھے۔ ان کے تیار کردہ گھوڑوں اور تلواروں کا کیا بنا اس کے بعد ہمیں بھی نہیں معلوم۔ ہمارے قومی سیاسی منظر نامے میں ایسے کردار عموماً منظر عام پر آتے رہتے ہیں جو شکسپئیر کے کسی ڈرامے کے کرداروں کی طرح وقت کے ساتھ بدل بھی جاتے ہیں۔ مگر ان کرداروں کے تخلیق کار اور ہدایت کار تسلسل کے ساتھ اپنی فخریہ پیشکش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سرحد کے اس پار تو اس بار لگتا ہے گھوڑوں خچروں کا بھی انتظار نہیں ہوگا بس چل سو چل۔ آگے آگے ٹی وی کے کیمرے اور ان کے ساتھ چیختے چنگھاڑتے اینکر کہلانے والے جدید دور کے بھانڈ اور ان کو چلانے والے کارپوریٹ سپانسر گویا جنگ نہیں کمبھ کا میلہ ہوا۔
دن بھر بریکنگ نیوز اور شام کو ہیجان خیز تبصروں کے لیے اشتہار دینے والے خوب جانتے بھی ہیں کہ گھوڑوں اور تلواروں سے صرف نفسیاتی جنگ ہی جیتی جاسکتی ہے جبکہ اصل یدھ میں ککھ نہیں بچنے والا سرحد کے اس پار اور اس پار۔ ان کے خیال میں جہاں تک ہوسکے جنگ کو نفسیاتی حدود میں رکھ کر لوگوں کو ٹیلی ویژن سے چپکا دیا جائے تاکہ سب کا دھندہ چل سکے۔ مگر جنگ ایک ایسا کھیل ہے جس کو شروع کرنا تو آسان ہے مگر ختم کرنا کسی کی بھی بس کی بات نہیں۔
ہندوستان کے میڈیا نے اس بار انتہائی منفی کردار ادا کیا۔ میڈیا ہاؤسز میں وار روم بنا کر وہاں فوجی جرنیلوں کو بٹھا کر جنگی حکمت عملی اور نقشوں کی مدد سے اہداف دکھا دکھا کر ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ جنگ نہیں بلکہ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ کرکٹ کا میچ ہورہا ہو۔ بھارت کی ریاستی پالیسی جس کے تحت پاکستانی کھلاڑیوں، فنکاروں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عام لوگوں کو ویزے دینے سے انکار ایک ایسا قدم ہے جو ناقابل فہم ہی نہیں مذمت قابل مذمت بھی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پلوامہ واقعے کے بعد کشمیر کے مزدوروں، طلبہ اور تاجروں کو ہندوستان بھر میں ستایا گیا، مارا پیٹا گیا اور انہیں لوٹا گیا جو متنازع خطے کے شہریوں کے دل میں نفرت میں مزید اضافہ کا سبب بنا۔
ہندتواکی علمبردار نیولبرل بھارتیہ جنتا پارٹی عرف بی جے پی انتخابات جیتنے کے لیے کسی بھی حدکو پار کرنے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔ عدم تشدد کے علمبردار مہاتما گاندھی کی جنم بھومی گجرات سے اپنی خاص متشدد سیاست کا آغاز کرنے والا نریندرا مودی نہ صرف خود ہندوستان کے پردھان منتری بن گیا بلکہ اس نے مذہب کے نام پر کشت و خون کی سیاست کو بھی پورے ملک میں بھی پھیلا دیا۔ ان کے دور حکومت میں گاؤ ماتا (گائے ) کے نام پر مسلمانوں کا بے دردی سے قتل عام تو ہوا ہی مگر اس کے ساتھ نچلی ذات کے ہندو بھی بچ نہ پائے۔ ہندوستان کے اصلی باشندوں یعنی نچلی ذات کے ہندوؤں کی بستیوں کی بستیاں اجاڑ دی گئیں اور گاؤں کے گاؤں ویران ہوئے۔
لگتا ہے مودی نے گجرات میں مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کے بعد اپنی سیاسی کامیابیوں سے یہ سیکھا ہے کہ جنگ کے جنون نے اس کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا ہے تو دوسری بار بھی بنا سکتا ہے۔ مگر اس کا اندازہ اس کو بھی نہیں کہ اس بار بات تقریروں سے آگے بڑھ کر جنگ کے شعلوں تک پہنچ جائے گی کیونکہ سرحد کے اس پار بھی جیتنے والے مودی کے یار کے خلاف ووٹ لے کر آئے ہیں اور جوابی جنگ ان کی بھی مجبوری ہے۔
سرحد کے دونوں طرف حکمرانوں کی خوش قسمتی ہے کہ لوگ اپنے خیالوں کے گھوڑے اور تلواریں تیار کیے، زبانی بندوقیں، توپیں چلانے، ڈنڈے اور پتھر برسانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ کبھی کبھار ان دو ممالک کے بیچ کرکٹ کے مقابلے میں ایک دوسرے کے خلاف ایسی جنگ اپنے گھروں، سوشل میڈیا، ٹی وی کے سکرینوں پر یا گراؤنڈ کی گیلریوں میں لڑنے کا موقع بھی ملتا ہے۔
دونوں طرف لوگ سمجھتے ہیں غوری اور پرتھوی میزائل دشمن پر داغے جائیں تو ان کو چن چن کر ماردیں گے۔ لوگوں کی خواہش ہے کہ جو ایٹم بم انھوں نے دنیا سے لڑ کر بنایا ہے اس کو استعمال بھی کیا جائے وگرنہ کہیں زائد المعیاد ہوکر ناکارہ نہ ہوجائے۔
دونوں طرف سیاست دان بھی ہمہ وقت جنگ کے لیے تیار نظر آتے ہیں اور عوام سے داد وصول کرتے ہیں، بار بار ووٹ لیتے ہیں اور حکومت کرتے ہیں۔ جب حکومت میں رہ کرغربت، بے روزگاری اور جہالت کے خلاف کچھ نہیں کر پاتے ہیں تو جنگ کا ایک اور نعرہ ان کو مکتی دلاتا ہے۔
اب کی بار جنگ بی آر بی کے نہر پر پل باندھ کر اور کھیم کرن کے محاز پر ٹینکوں سے نہیں لڑی جانے والی۔ ایٹمی طاقت کے حامل جنوبی ایشیا کے ان دو ملکوں کے درمیان اگر خدا نخواستہ کہیں جنگ کی نوبت آئی تو یہ تاریخ کی مختصر ترین جنگ ہوگی جس کا منٹوں اور سیکنڈوں میں فیصلہ ہوسکتا ہے۔
یہ بات بھی طے ہے کہ جنگ کا فیصلہ اس بار کسی ایک ملک کے حق یا خلاف نہیں بلکہ اس پورے خطے کی تباہی کی صورت میں ہوگا۔ اگر لاہور، کراچی اور راولپنڈی کو نشانہ بنا دیاجائے تو آدھا ہندوستان بھی اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ کوئٹہ اور پشاور کے ساتھ افغانستان اور ایران بھی نہیں بچ سکتے۔ ہندوستان کے شہر ممبئی، دہلی اور کلکتہ کے ساتھ لاہور، کراچی اور ڈھاکا کیسے بچ پائیں گے۔ کسی کم سے کم طاقت کے ایٹم بم کی تابکاری بھی مشرق بعید سے یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
ایٹمی جنگ اور ایٹم بم کی ہولناکی کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ایٹمی جنگ ایک ایسا ڈراؤنا خواب ہے اگر اس کا ادراک ہوجائے تو انسانوں کو نیند نہ آئے۔ ایک ایٹم بم کئی سو کلومیٹر کے قطر میں ہر قسم کے جانداروں کو نہ صرف تباہ کردیتا ہے بلکہ اگلی کئی دہائیوں تک دوبارہ جنم لینے اور زندہ رہنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ تباہی کسی ایک ملک اور خطے میں میں نہیں ہوگی بلکہ دنیا بھر میں تابکاری کے ایسے اثرات پڑیں گے کہ آئندہ کئی دہائیوں تک روئے زمین پر زندگی خطرے سے دوچار ہے گی۔
ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر امریکی ایٹمی حملہ تو پرانی بات ہے اگرکوئی شخص روس کے چرنو بل میں 1986 ء کو ہونے والے کے ایٹمی پلانٹ سے حادثاتی طور پر خارج ہونے والی تابکاری کی تباہی یا ہندوستان کے شہر بھوپال میں یو نین کاربایئڈ کے 1984 ء کے حادثے کے مضمرات سے تھوڑی سی بھی واقفیت رکھتا ہو تو کسی بھی ایٹمی جنگ کے تصور سے ہی لرز جاتا ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کسی بھی بڑے تصادم کی صورت میں ہونے والی تباہی سے دنیا کے سب بڑے طاقت کے مراکز واقف ہیں اس لیے ایک خاموش سفارتکاری کے ذریعے دونوں ممالک کو روکنے کی کی کوششیں بھی جاری ہیں جو امید کی ایک کرن ہے۔