ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات“
عبدالحسین آزاد
مزدور ہونا کوئی بری بات نہیں بلکہ مزدوری اور محنت تو انبیا ء،رسولوں اوراولیاء اللہ کی سنت ہے۔ہمارے پیاری نبی حضرت محمد ﷺ نے بھی محنت سے کما کر کھانے کی تاکید فرمائی ہے۔حضرت علی ؑ جیسی عظیم ہستی نے یہودی کے باغ میں جاکر مزدوری کی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے عبادت الٰہی کے بعد افضل ترین عمل حلا ل کمائی کی غرض سے محنت کوقرار دیا ہے۔قرآن مجید میں ”عبادت الہٰی کے بعد زمین میں پھیل کر روزگارکی تلاش“ کا حکم آیا ہے۔قرآن پاک وحدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں جس طرح حلال کمائی کو عظیم عبادت قراردیتے ہوئے محنت ومزدوری کی تاکیدکی ہے اسی طرح حکام سے رعایا اور محنت کش طبقہ کے حقوق کی آدائیگی پر بھی زور دیا ہے۔دور حاضر میں اگر بات کی جائے مزدوروں کی تو ترقی پذیر ممالک میں مزدوروں کے حالات ناگفتہ ہیں۔دنیا جوں جوں ترقی کی سمت گامزن ہوتی جارہی ہے مزدوروں کے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں مزدوروں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بے روزگاری اور مزدوروں کے خراب حالات میں مسلسل اور خطرنا ک حد تک اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنل ڈویلپمنٹ پروگرام کی پاکستان کے متعلق روزگاررپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف 39 فیصد نوجوانوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہیں جبکہ60 فیصد بے روزگار ہیں۔پاکستان میں 77 فیصد نوجوان روزگار کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ ملک کی مجموعی لیبر فورس کا 41.6 فیصد ہے جبکہ 40 لاکھ نوجوان ہرسال جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہرسال دس لاکھ افراد کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرے۔پاکستان میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق مزدوروں کے حالات ناگفتہ ہیں۔حکومت نے بھی مزدوروں کے حقوق کی ضمانت بننے کی بجائے مزدوروں کا گلہ گھوٹنے کا اعادہ کررکھا ہے۔ملک میں ایک تو بے روزگاری اور ملازمت کے مواقعے پہلے سے ناپید تھے اور اس کی وجہ ملک میں عرصہ دراز سے چلنے والی بد امنی،دہشتگردی،بھتہ خوری،کرپشن اور اقرباء پروری ہے۔گزشتہ 13سالوں میں پاکستان کے بہت سے تاجر اپنا سرمایہ اورکاروبار سمیٹ کر خاندان سمیت بیرون ملک منتقل ہونے پر مجبور ہوئے کیونکہ پاکستان میں وہ خود کو اور اپنے کاروبار کو غیر محفوظ سمجھتے تھے،اس کا سب سے بڑا نقصان ان مزدوروں کو ہوا جو روز مرہ کی بنیاد پر وہاں ملازمت کرکے اپنی زندگی کا سرکل چلا رہے تھے۔مہنگائی،بے روزگاری اور مزدروں کی بے توقیری پاکستان کا روز اول سے بہت بڑا مسئلہ رہا ہے مگر بد قسمتی سے اس کی جانب توجہ کم دی گئی ہے،ہر آنے والی حکومت نے دعوے اور وعدے بہت کئے مگر جاتے ہوئے وہی خزانہ خالی،ٹیکس چوری،مزدوروں کے حقوق پر ڈاکہ زنی کے سوا ان کا کوئی دوسرا کارنامہ نہیں رہا۔موجودہ حکومت نے بھی بلند وبانگ دعوے کر کے مزدروں کے دلوں میں ایک آس ڈالی تھی اور مزدور اس آس میں تھے کہ اب ان کے حالات بدلنے والے ہیں،وہ اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات پوری کرسکیں گے،دن کی سخت مشقت کے بعد رات کو گھر کی دہلیزپر منتظر بچوں سے آنکھیں چرانے کا وقت اب ختم ہونے والا ہے،اب ہم بھی اچھا نہیں تو درمیانی لباس پہنیں گے،بچے ہمارے بھوک سے کبھی نہیں تڑپیں گے،اب ہر رات کو کم از کم بچوں کو کھانے کو کچھ نہ کچھ ضرور ملے گا،جیسے خواب اور وقتی حسرتیں مزدوروں کے دلوں میں جھاگ اٹھی تھیں جب نئے پاکستان کا دعویٰ کرنے والے اور غریبوں اور امیروں کا فرق مٹانے والوں کی حکومت آئی تھی، غریب پرور ی کا حکومت نے نعرے لگایا تھا،مختلف شہروں میں کیمپس بھی لگائے تھے،مگر کس کو کیا خبر تھی کہ یہ جو نیا نظام رائج ہونے والا ہے وہ غریب پر ور نہیں بلکہ غریبوں کی ہستی مٹانے والا ہوگا،غریبوں سے مزدوروں سے ایک وقت کی روکھی سوکھی روٹی او ر ان کے منہ سے نوالہ بھی چھن جائے گا،کسی کو کیا خبر تھی کہ وہ مزدور جو مسلسل محنت کے بعد بہ مشکل مہینے میں 10سے 15ہزار کما رہا ہے،(وہ اس صورت میں جب کام مل جائے،جب مزدوری لگ جائے،جب ملک اور شہر کے حالات ٹھیک ہوں)اس کو کیا خبر تھی کہ پیٹرول کی قیمتیں آسمانوں پر چلیں جائیگی۔گیس بجلی فی یونٹ 6روپے مہنگی ہوجائے گی اس کو ماہانہ صرف اور صرف گیس بجلی بل کی مد میں 5000تک ادا کرنا ہوگا۔(کرایہ دار مزدور کا تو خدا ہی حافظ ہے)روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوگا،پیاز 80اور ٹماٹر 100 روپے فی کلوپر چلے جائیں گے اور چینی 60روپے فی کلو سے تجاوز کرجائے گی۔ٹیکسز بھی ان اشیا ء پر لگایا جاتا ہے جو غریب اور مزدور زیادہ استعمال کرتے ہیں۔کہتے ہیں ریاست ماں ہوتی ہے کیا آپ نے کبھی کوئی ایسی ماں دیکھی ہے جس کا ایک بیٹا اربوں سے کھیل رہا ہو اور دوسرا روٹی کو ترس رہا ہوں،کپڑا اور مکان کی تو بات ہی الگ ہے۔ ان بیچارے مزدوروں پر ظلم کی انتہا ہوچکی،خدا را اب بہت ہوچکا۔ بس اب بند ہونا چاہیے یہ سب،ان کے بھی بچے ہیں،ان کی بھی خواہشات ہیں،یہ بھی ضروریات زندگی رکھتے ہیں،کیا اسلامی فلاحی ریاست کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ مزدوروں سے اس طرح پیش آیئے،اس ملک میں مزدور کا کوئی خیر خواہ اور وفادار نہیں،مزدوریونینز کے نام پر چند مفاد پرست لوگ ہر طرح سے مفادات لے کر سائیڈہوجاتے ہیں۔
یکم مئی کو بطورمزدور ڈے منایا جاتا ہے مگر بیچارہ مزدور اس دن بھی چین سے نہیں سوتا،ار ے کیسے چین سے رہ پائے گا،جس دن روزگار نہیں ملا،اس دن بچے بھوکے ررہیں گے۔دن بھر کی تھکن،دربدری اور مشقت سے تھکے ہارے مزدور کی ہمت اس وقت جواب دے جاتی ہے جب شام کو گھر کی دہلیز پر منتظر بچے کچھ مانگیں اور وہ دے نا پائے،تب ہمت جواب دے جاتی ہے،تب تمام حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں،یہی وجہ ہے اس ملک میں کبھی کوئی باپ اپنے ہی ہاتھوں اپنی اولادکو گلا دبا کران کو بھوک سے چھٹکارا دیتا ہے،اور خود بھی موت کے منہ میں چلاجاتا ہے،(گزشتہ سال رمضان میں خصوصاً پنجاب کے اندر اور بالعموم پورے ملک میں ایسے درجنوں واقعات دیکھتے میں آئے تھے)۔روز روز کی اذیت سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جا ن چھڑالیتا ہے تو کبھی بچوں کو دریا بھرد کردیتا ہے۔ خدارا مزدوروں پر رحم کیا جائے،مزدور ڈے کو اصلی معنوں میں منایا جائے،آفسز بند کرکے،گورنمنٹ وپرائیویٹ ملازمین کو چھٹیاں دے کر مزدور ڈے نہیں منا یا جاسکتا،اگر مزدور ڈے منانا ہے اور واقعی مزدوروں کا خیال رکھنا ہے تو رمضان کا مقدس مہینہ آنے والا ہے،روزمرہ کی استعمال کی اشیاء ڈالڈا،چائے،چاول،دالیں،آٹا،چینی اور آئل جیسی چیزیں ان کو دے دیجیے تاکہ کوئی ننھاسا بچہ بھوکا نہ سوئے، والدین مایوس نہ ہوں۔حکومت وقت کے فرعونوں سے گزارش ہے کہ فرعونیت ختم کیجیے،مہنگائی پر کنٹرول کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات کئے جائے،نوکریوں کے انبھار کے جھوٹے اور بھونڈے دعوے کرنے والے اعوام سے معافی مانگیں۔مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کیمطابق مزدوروں کی ماہانہ آمدنی میں اضافہ کیا جائے۔رمضان میں خدا کیلئے مہنگائی پر مکمل کنٹرول کیا جائے،صحت اور تعلیم کے پروگرامز میں مزدوروں کا بڑا حصہ مختص کیا جائے۔مزدوروں کے فنڈز کا استعمال صرف مزدوروں کی فلاح وبہبود میں کیا جائے۔روزگار کے مواقعے پیدا کیے جائیں۔