تحریر۔۔۔شمس الرحمن شمس
جناب ان دنوں آپ دوربین سے دیکھے تو بھی اپنے حلقے میں نظر نہیں آہ رہے ہوں۔۔ ویسے تو آپ اپنے حلقے میں بہت ذیادہ وقت دیتے ہو ۔۔۔۔ جناب اعلی ویسے تو پورے ضلعے میں ایجوکیشن کا نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے مگر گزشتہ کئی دنوں سے آپ کے حلقے میں سرکاری سکولوں میں آے روز کوئی نہ کوئی احتجاج سامنے آہ جاتی ہے ہمیں معلوم ہے کہ آپ جیسے بااثر اور صاحب استطاعت رکھنے والے لوگ گلگت ،اسلام آباد اور دیگر شہروں میں اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کروا رہے ہیں مگر ان غریب لوگوں کے بچوں کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے ؟؟؟یہ عوام جواب طلبی کا حق محفوظ رکھتی ہے کونسی سازش ان بچوں کے مستقبل کے ساتھ ہو رہی ہے ؟؟؟کیوں ان غریب بچوں کے مستقبل کو تاریک کر رہے ہیں؟؟؟ جناب اعلی آپ اور آپ کی ٹیم نے استور میں ایک ایسے شخص کو نائب ناظم تعلیمات تعینات کیا ہےکہ اگر کوئی سائل ایجوکیشن سے منسلک کوئی مسلہ لیکر موصوف کے پاس تشریف لے جاتے ہیں تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ میں آگے ریٹائر ہو رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
جناب اعلی
سارے ریٹائر شدہ ڈپٹی ڈاِریکٹرز کو ہر وقت استور میں کیوں تعینات کرتے ہیں؟؟ آپ کے دور حکومت میں تقریباً 3 سے 4 ڈپٹی ڈائریکٹرز کی الوداعی تقریب استور میں ہوئی کیا مزاق ہے ۔۔۔۔۔۔(سر) یہ سب کیوں ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔گرلز سکول چھوگام اور گرلز سکول گدئی میں اساتزہ نہ ہونے پرعوام نے انوکھا احتجاج اس طرح سے کیا ہے کہ اپنے طلبہ کو سکول۔بھیجنا بند کر دیا ہے ….ان کا واضح موقف ہے کہ جب تک ہمارے سکولوں کی پوسٹوں میں تعینات ٹیچرز نہیں آہ جاتے ہیں ہم اپنے بچیوں کو سکول نہیں بھیج دینگے ۔اس انوکھے احتجاج سے طالبات روٹین کی پڑھائی سے ضرور محروم ہوگئی لیکن اس کا ذمہ دار آخر کون ہے گرلز ہائی سکول گدئی کی پوسٹوں میں تعینات اکثر اساتزہ سیاسی اثر اسوخ کی بنیاد پر اپنے من پسند اسٹیشنوں میں تعینات ہیں جب کہ سکول میں خالی بلڈنگ کے اعلاوہ کچھ نظر نہیں آہ رہا ہے اسی طرح گدئی سکول میں چیراسی کی پوسٹ میں کسی غیر مقامی خاتون کو بھرتی ضرور کیاہے مگر وہ غیر مقامی خاتون روزانہ گدئی جا کر اپنے خدمات سر انجام نہیں دیں سکتی ہے۔۔۔۔۔۔ اسی طرح گرلز سکول چھوگام میں تو چھوگام کی عوام سے کس بات کا بدلہ لیا جا رہا ہے یہ ہمیں نہیں معلوم لیکن اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ان طالبات کے مستقبل پر ڈرون حملہ ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ گرلز سکول چھوگام کے تیرہ ٹیچرز میں سے ایک ٹیچرز اپنے اسٹیشن پر ڈیوٹی دے رہی ہے جبکہ باقی بارہ ٹیچرز اپنے من پسند اسٹیشنوں پر تعینات ہیں صرف یہ دو سکول نہیں ہیں جناب اعلی اور بھی بہت سارے سکول ایسے ہیں جہاں خوبصورت عمارتیں ضرور بنی ہوئی ہیں مگر اندر اساتزہ بلکل بھی موجود نہیں ہیں خدا راہ اس اہم مسلے کو حل کرنے کے حوالے سے موثر اور سنجیدہ اقدامات اٹھایں تاکہ یہ طالبات معیاری تعلیم حاصل کر سکیں ۔