یوم نسالو, وادی بگروٹ کے لوگ صدیوں سے یہ دن مناتے چلے آرہے ہیں

حریر: ایم کثیر رضا بگورو
13 دسمبر یوم نسالو.
اگرچہ عالمی برادری11 دسمبر کو پہاڑوں کے عالمی دن کے طور پر مناتی ہے  اور22 مارچ کو پانی کے دن کے طور سے مناتے ہوئے صرف دو دہائیاں گزری ہیں، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ  گلگت بلتستان کی ایک خوبصورت وادی! وادی بگروٹ کے لوگ صدیوں سے یہ دن مناتے چلے آرہے ہیں۔ بائیس 22 مارچ کو بگروٹ کے لوگ پانی سے متعلق قدیم دستوری معاملات طے کرتے ہیں۔ اس وقت وادی میں نوروز کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں اور اسی دن وادی کے ہر گاؤں میں آبپاشی کے انتظام پانی کی تقسیم اور وارہ بندی کا اعلان کیاجاتا ہے، جب کہ پہاڑوں کے عالمی دن 11دسمبرکے بعد نسالو کی تیاریاں شروع کی جاتی ہے۔ چونکہ ان دنوں بالائی چراگاہوں سے مویشی کو واپس گاوں لایا جاتا ہے، اور نسالو کی تیاری کی جاتی ہے۔ لیکن اب بدلتے موسموں نے ان تمام روایات، مقامی ثقافت اور خوراک کے وسائل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ وادی بگروٹ گلگت شہر سے 30 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ مشہور چوٹی بلچھار دوبانی  وادی کو دوحصوں میں تقسیم کرتی ہے یعنی بڑی بر اور چنی بر میں ۔ وادی بگروٹ چھوٹے بڑے 16گاؤں پر مشتمل ہیں۔ وادی کو چاروں طرف سے دوبانی، گرگو، یونے، بوئی پھر، ہنرچی، یونگالی، گٹومی، ڈوڈی رونگ ، برچی  اور راکاپوشی گلیشئرز نے گھیرے رکھا ہے۔ ان ہی گلیشئرز کے اندر واقع جھیلوں سے چھلکنے والا سیلابی پانی اور سیلاب ہر سال وادی کو بھاری بر نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔  بگروٹ کی جنت نظیر وادی کو سرویئر جنرل آف انڈیا نے ایشیا کا شنگریلا قرار دیا۔ مقامی ماہرین کے مطابق ان علاقوں میں موسموں کی تبدیلی بہت نمایاں ہے۔ برف باری کا دورانیہ بہت کم ہوگیا تھا لیکن گزشتہ تین سال سے وادی میں برف باری میں ایک مرتبہ پھر سے اضافہ ہونے لگا ہے۔ موسموں کی تبدیلی خوراک کے وسائل پر براہ راست اثرات مرتب کررہی ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ ان کے بچپن کے دنوں میں برف باری نومبر سے شروع ہوتی تھی اور فروری تک جاری رہتی تھی۔ وادی برف سے سفید ہوجاتی تھی۔ اب بھی بالائی پہاڑوں پر پڑنے والی برف کی بوجھ سے درختوں کی شاخیں بھی ٹوٹ جاتی تھیں اور ایوا لانچ میں یہ لکڑیاں گاوں تک آجاتی ہیں۔موسم سرما کے لیے لوگ مال مویشی کے لیے چارا جمع کرکے رکھتے ہیں۔ حالیہ دو تین سالوں سے ایک مرتبہ پھر وادی بگروٹ میں برف باری اسی نوعیت کی ہونے لگی ہے۔ اسی لئے لوگوں میں ایک مرتبہ پھر پرانی روایات پلٹ کر آئی ہیں اسی طرح نسالو کا رجحان بھی بڑھنے لگا ہے۔ نسالو فیسٹیول جو 13 دسمبر کو شروع ہوتا ہے۔ اس دن بیل اور بکروں کو ذبح کرکے گوشت خشک کرنے کے لئے سٹور(ڈمبور) میں رکھتے ہیں۔ بدلتے موسموں سے وادی کی روایات اور ثقافت بھی متاثر ہونے لگی تھی لیکن اب دوبارہ لوگوں کا رجحان پرانی روایات کی طرف پلٹ گیا ہے۔
گلگت بلتستان کی  خوبصورت وادیوں کے تہوار بھی بہت انوکھے ہیں اور حیرت انگیز طور پرتمام تہواروں کا تعلق موسموں سے ہے اور وادی میں بدلتے موسم یہاں کی روایات اور ثقافت کو بھی متاثر کررہے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی یہاں کے لوگ سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ ان کی قدیم روایات اور ثقافت محفوظ رہے۔ ذیل میں ہم اس وادی کی کچھ دلچسپ اور دلفريب  روایات اور تہواروں کا مختصراً تذکرہ کررہے ہیں:
٭ قدیم روایات:
قدیم شینا کیلینڈر میں نیا سال  دسمبر سے شروع ہوتا ہے۔ جب سورج اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے ۔ اسی نسبت سے  دسمبر کے مہنے میں نسالو یعنی نئے سال (ناؤو سال) کا دن مناتے ہیں۔ سال کی ابتدا سرد ترین اور مختصر ترین دن اور مہینے سے ہوتی ہے۔ جب برف کی چادر پوری وادی کو ڈھانپ لیتی ہے۔ یہاں کی آبادی ساری گرمیاں خاندان بھر کے لیے سرمائی خوراک اور دیگر ضرورتوں کے حصول میں کوشاں رہتی ہے۔ دسمبر تک ہر گھرانا حسب حیثیت اپنے ڈمبور (سٹور) میں سردیوں کے لیے خوراک کو محفوظ کرلیتے ہیں۔ اسی دوران گاوں کے بزرگ غریب ، بیوہ اور یتیم گھرانوں کا دورہ کرکے وہاں بھی خوراک کی فراہمی یقینی بناتے ہیں یہ روایت بھی وادی بگروٹ کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔ ذیل میں ہم اس خوبصورت وادی کے خوبصورت تہواروں کا تزکرہ کرنا چاہتے ہیں یقیناً قارئین کو پسند آئنگے۔ سردیوں کے لیے خوراک سے متعلق ضروری امور سے فراغت کے بعد ثقافتی تہواروں کا آغاز ہوتا ہے۔ ان دستوری دعائیہ تقریبات میں اجتماعی خیرو برکت اور سلامتی کے لیے فطری انداز میں رب دو جہاں سے رجوع کیا جاتا ہے۔ دسمبر کا مہنہ وادی بگروٹ میں کئی ایک اہم ثقافتی تہوار اور مواقع لے کر آتا ہے۔ ان ایام میں گاوں کی افراد جمع ہوچکے ہوتےہیں۔ گرمائی چرا گاہوں سے چرواہے ریوڑ، مویشی لے کر اور بالائی آبادیوں سے لوگ گاوں میں اتر چکے ہوتے ہیں۔  ہر طرف گہماگہمی بڑھ جاتی ہے۔ اس سے قبل کہ چرواہے سرمائی چراگاہ ہرلی کی طرف کوچ کریں، گاؤں کے افراد اپنے  ثقافتی دستور کے مطابق رسومات اور تہوار مناتے ہیں۔ ان ہی ایام میں شادیوں کے دن مقرر کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک بڑی معاشی سہولت ہے۔ جو ضرورت مند گھرانوں کو یہاں کا سماجی دستور مہیا کرتا ہے۔موسم سرما میں ان تہواروں کے لئے پہلے سے ہی تیاری کیجاتی ہے تاکہ بعد میں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑھے اس لئے جو لوازمات ہوتے ہیں انکا تزکرہ بھی کرنا چاہتا ہوں۔
(1) اشار:
یہاں لوگ گرمیوں میں خوبانی، گری، بادام، اخروٹ اور دیگر  پھل جو ذخیرہ کیے جاسکتے ہوں زیادہ سے زیادہ مقدار میں جمع کرلیتے ہیں، جو سردیوں میں مہمانوں کے تواضع اور گھر کے افراد کے لیے متوازن خوراک کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ہے اور نسالوں کے تہوار کے موقع پر بھی اشار سے مہمانوں کی خاطر تواضع کیا جاتا ہے۔
٭دیشکی:
چونکہ آگے سخت برف پڑے گی اور چکیاں بند ہوں گی اس لیے ہر گھر اپنے عیال کے خرچے کے حساب سے اپنی تون ( لکڑی کا بڑا صندوق) میں آٹے کی موجودگی کو یقینی بناتا ہے۔ بجلی کی سہولت کے بعد یہ رسم وادی میں ختم ہوچکی ہے۔ البتہ بالائی بگروٹ میں آج بھی قائم ہے۔
لوئی:
ہر گھر سردیوں کے لیے لکڑی کا ذخیرہ کرلیتا ہے۔ جلانے کی لکڑی  مقامی  جنگل سے لاکر جمع کرکے ایندھن کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہی  جسکی وجہ سے صنوبر اور دیگر جنگلی درخت معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
٭نسالو:
جب دیگر لوازمات مکمل کر دئیے جاتے ہیں تو گیارہ دسمبر کے بعد نسالوں کی تیاریاں شروع کرتے ہیں ہر گھر حسب استطاعت مویشی ذبح کرکے سردیوں کے لیے گوشت کا انتظام کرتا ہے۔ ان ایام میں ذبح کیے گئے مویشی کا گوشت سڑھتا نہیں ہے بلکہ سوکھ کر نہایت لزیز ہوجاتا ہے۔ گوشت کے چھوٹے ٹکڑے بنا کر ڈومبورؤں میں ٹانک دیتے ہیں تاکہ اچھی طرح سوکھ جاے اسکے علاوہ نسالوں کے گوشت کا قیمہ بناکر مصالحہ لگا گوشت جانوروں کی آنتوں میں ڈال کر  ورکو بنا کے سکھایا جاتا ہے اور فروری کے مہنے میں بذونوں کے دن خصوصی طور پہ پکا کر رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو دعوت دے کر کھلایا جاتا ہے۔
ڈھم ڈھم پروچو:
نسالو کے دن گاوں کے بچے اپنے اپنے پرو (گلی) سے ٹولیوں کی شکل میں نکل کر جمع ہوتے ہیں۔ یہ بچے کئی دنوں سے اس دن کے لیے تیاری کرتے ہیں ، ان کے لیے نئے لباس خصوصاً پٹو کی سفید ٹوپی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مائیں خصوصاً خشک میوہ جات سنبھال کر رکھتی ہیں جو اس دن بچوں کو دیتی ہیں۔ بچے وقت مقررہ پر قریبی پہاڑ میں صنوبر کے درختوں تک پہنچنے کے لیے دوڑ لگاتے اور وہاں پہنچ کر کھیل کود اور تماشے کے بعد واپسی میں صنوبر کی چھوٹی چھوٹی تازہ ٹہنیاں لے کر آتے ہیں، جن کو گھر گھر میں نیک بختی کے سندیسے کے طور پر پہنچایا جاتا ہے۔
تلینو:
نسالو کی رات گاوں کے نوجوان کسی ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں اور لکڑی جمع کر کے آگ جلاتے ہیں اور رات بھر مزاحیہ پروگرامات پیش کرتے ہیں اور آدھی رات کو تلینو کی رسم ادا کرتے ہیں جس میں نوجوان ھاتھوں میں مخصوص قسم کی صنوبر کی سوکھی لکٹری کو مخصوص انداز میں تیار کر کے اگ لگا کر مشعل کو ھاتھ میں لئے دوڑتے ہیں اور جو پہلے مقرہ جگہ تک پہنچ جاتاہے اسکو انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ مقامی بزرگوں کا کہنا ہے تلینو  کے زریعہ ایک ظالم راجا شری بدت کا خاتمہ ہوا ہے اسلیے جشن کے طور پر اس رسم کو ادا کر کے شری بدت سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور فتح کا جشن مناتے ہیں اور یہ ایک اہم تاریخی واقع ہے جسکا تاریخ میں بھی تزکرہ ہے۔
دھمہ کھہ:
 نسالو کی شام سارے گاوں کے گھروں کو صنوبر اور لوبان کی دھونی دے کر نحوستوں سے پاک کیا جاتا ہے اور مخصوص پکوان درم پکایا جاتا ہے۔ جس کی تیاری کے لیے سردیوں سے پہلے ہی گندم یا جو کو مخصوص مدت تک بھگویا جاتا ہے اور پھر سکھا کر اخروٹ یا خوبانی کے تیل میں پکایا جاتا ہے۔ یہ سردیوں کی مخصوص سوغات ہے۔
موال:
نسالو کے اگلے دن ہر گھر سے خشک میوہ جات ، گھی، نسالو کا گوشت اور روٹی کی تھال لے کر لوگ کسی مناسب جگہ جمع ہوتے ہیں۔ یہ سال کی تقریبات اور رسومات کی ابتدا ہے، جس میں گاوں کے لوگ اپنے مرحومین کی یاد میں تحفے لاتے ہیں اور اجتماعی دعا کرتے ہیں جس کو موال کہتے ہیں موال یعنی مرحومین کے نام خیرات۔
٭شاپ :
غیر شادی شدہ نوجوانوں کا گروہ مقررہ رات ہر گھر کے دروازے پر جا کر گھر اور اس کے مکینوں اور مہمانوں (اگر اس رات کوئی ہے) تو فرداً فرداً صحت اور سلامتی اور مال و دولت کے لیے دعائیہ گیت گاتے ہیں۔ گھر کا بزرگ خشک میوہ جات اور نسالو کا گوشت یا نقد رقم انعام میں دیتا ہے
شاپے جری گہ جرو:
 ایک بچہ بڑھیا اور دوسرا بچہ بوڑھے کے لباس میں ملبوس ہو کر چہرے پر مخصوص ماسک لگا کر مخصوص انداز میں لوگوں میں خوشیاں بانٹتے اور دعا دیتے ہیں۔مقامی زبان میں اسکو (ٹوکورو) کہتے ہیں اور کردار ادا کرنے والوں کو (جری گہ جرو) کہتے ہیں یوں یہ روایات بتاتی ہے کہ کمسن بچے دلہا اور دلہن کے نام سے شرماتے ہیں، حیاء کرتے ہیں اس لئے طبعی حیاء داری کی وجہ سے عمر رسیدہ افراد کا کردار ادا کرتے ہیں تاکہ بے حیائی کا میلان ختم ہو۔ نوجوان کے مقابلے میں عمر رسیدہ افراد کی زندگی کے تجربات سے گزر کر سنجیدہ، پروقار زندگی کا رول  ادا کرتے ہیں اس سے اس قوم کی مستقبل میں بچوں کو سنجیدہ دیکھنے کی خواہش کا پتہ چلتا ہے ، ماسک پہن کر چہروں کو ڈھک کر کردار ادا کرنے سے ان کی شرمیلی ، نازک طبیعت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ گاوں بھر میں دعائیں تقسیم کرنے کے بعد حاصل شدہ انعام سے بڑے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں گاوں کے بزرگ ، عمائدین اور علمائے کرام کو دعوت دی جاتی ہے۔ ان تقریبات میں اجتماعی دعا کے علاوہ نوجوانوں کے ناچ گانے اور مزاحیہ خاکوں کے ذریعے سماجی ناانصافیوں معاشرتی برائیوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ جس سے علاقے کے لوگوں میں امن اور بھائی چارہ گی کی فضاء قائم ہوجاتی ہے اور نوجوانوں میں محبت اور ہمدردی کا عنصر  پیدا ہوجاتا ہے۔

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan