*عبوری صوبہ یا گِدھ کا نیا منصوبہ؟* تحریر: یونس راجہ

خطہ بےآئین، بےحس و بےبس انسانوں کی سرزمین گلگت بلتستان پر گِدھ وقتاً فوقتاً ہمدردی جتانے آجاتے ہیں اور مختلف پیکجز دیتے ہیں، کبھی عبوری صوبہ کے نام پر تو کبھی آئینی صوبہ کے نام پر جال بچھاتے ہیں اور بڑی آسانی کے ساتھ ہر بار قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مقاصد حاصل کر جاتے ہیں، یہ گِدھ جب بھی آتے ہیں ایک نئے اور دلنشین رومال میں لپیٹ کر ہمیں لالی پاپ دے جاتے ہیں اور ہم ہمیشہ کی طرح اسے چوسنے پر قناعت کرتے ہیں، آج ایک بار پھر گِدھ اس سرزمین پر منڈلا رہے ہیں، آج ایک بار پھر لالی پاپ چوسنے کا وقت ہوا چاہتا ہے کیونکہ اعلی ایوانوں میں عبوری صوبے کی بازگشت زور و شور سے سنائی دینے لگی ہے مگر اب کی بار شاید گِدھوں کو اندازہ نہیں کہ لالی پاپ چوستے ہوئے کچھ نوجوان پروان چڑھ کر جوانی کی دہلیز پہ اپنے لڑکھڑاتے قدم رکھ چکے ہیں اور طلوعِ سحر کی نوید سنانے لگے ہیں، کچھ کرنیں پھوٹ رہی ہیں، ڈگمگاتے قدم ہچکچاتے ہوئے ایک نامعلوم منزل کی جانب پا بہ جولاں ہیں اور نحیف سی آواز میں صدا لگا رہے ہیں کہ اس زہر آلود لالی پاپ کو تھوک دیجئے، یہ نشہ آور ادویات کا مرکب ہے جو حلق سے اترنے کے بعد نظر و فکر پر ایسی بےہوشی طاری کر دیتا ہے کہ گِدھ کی بھیانک تصویر سونے کی چڑیا نظر آتی ہے اور اس چڑیا کے انڈوں پر شیخ چلی کی کہانی چلا چلا کر سنائی جاتی ہے پھر تمام مسائل کا حل عبوری صوبے میں نظر آنے لگتا ہے
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! کون سنتا ہےکہانی میری اور وہ بھی  زبانی میری
تاہم مجھ سمیت کئی سر پھرے نوجوان اپنی کہانی سنانے پر بضد ہیں لہذا کانوں میں انگلیاں ٹھونس دیجئے، ہماری زبانیں مَقفل کر دیجئے کیونکہ حقائق سننے کے آپ کسی صورت مُتَحَمِّل دکھائی نہیں دے رہے، آپ نے بزرگوں کی 74 سالہ قربانی کو دریا برد کرنے کی ٹھان لی ہے تو اپنی اس سنگ دلی کا مظاہرہ کیجئے ہم بھی
“سرِ دیوار لکھیں گے پسِ دیوار کے قصے”
حیرت ہے کہ عبوری صوبہ کو تمام مسائل کا حل قرار دینے والے بزرگوں کے احسان فراموش دانشور یہ بھول رہے ہیں کہ بلوچستان کی محرومیوں کے ازالے کیلئے 1970 میں اس خطے کو آئینی صوبہ بنایا گیا تھا مگر 52 سال گزرنے کے بعد آج بلوچستان مسائلستان بنا ہوا ہے، آج وہاں حقوق کی جنگ لڑتے لڑتے بچے بوڑھے ہوگئے ہیں، محب وطن بغاوت پر اُتر آئے ہیں، عورتیں سڑکوں پر احتجاج کرتے کرتے بانجھ ہوگئی ہیں لیکن مسائل ہیں کہ حل ہونے کا نام نہیں لیتے، عبوری صوبہ کو مسائل کا دیر پا اور مستقل حل سمجھنے والے آنکھیں موندھتے ہوئے فاٹا کی موجودہ صورتحال دیکھ لیتے تو یہ حقیقت اُن پر واشگاف ہوتی کہ مسائل کا حل عبوری یا آئینی صوبہ کے اندر نہیں ہے، اگر یہ گِدھ واقعی قوم کے ساتھ مخلص ہیں تو ذرا حوصلہ کرکے اس حقیقت کو قوم کے سامنے لائیں کہ 1948 میں طویل جدوجہد کے بعد اپنی مدد آپ کے تحت اُس وقت کے گورنر برگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے نومولود ریاست پاکستان کے ساتھ مُلحَق ہونے والے بزرگوں نے آزادی کے شادیانے کیوں نہیں بجائے؟ 74 سال تک خود کو حقوق سے محروم رکھ کے بھی پاکستان کا ساتھ کیوں دیا؟ کیوں من حیث القوم کسمپرسی کی زندگی گزار کر دنیا سے چلے گئے؟ کیا آزادی کی بھی کوئی قیمت ہوتی ہے جو وہ پاکستان سے وصول کرنا چاہتے تھے؟ کیا انہیں آزادی عزیز نہ تھی؟ یا غلامی کی زنجیر ان کے بدن کا لازمی حصہ تھی کہ جسے اتار پھینکنا ناممکن تھا؟ نہیں! ہرگز نہیں! ہمارے بزرگوں نے آزادی کے باوجود خود کو آزاد تصور نہیں کیا کیونکہ وہ جانتے تھے ہم ابھی پوری طرح آزاد نہیں ہوئے، ہمارا ایک ہاتھ چھوٹ تو گیا ہے لیکن ہمارا دوسرا ہاتھ ابھی دشمن کے قبضے میں ہے لہذا جب تک پورا بدن بالکلیہ آزاد نہیں ہوتا ہم خوشی نہیں منائیں گے، آج بزرگوں کی اس عظیم قربانی کو پس پشت ڈال کر دائمی اقتدار کے خواب دیکھنے والے نہ صرف بزرگوں کی روحوں کو تڑپا رہے ہیں بلکہ وہ ریاست پاکستان کے حقیقی مؤقف کو کمزور کرکے اقوام متحدہ میں ہمارے مقدمے کا مذاق اڑا رہے ہیں، گلگت بلتستان زمانہ قدیم سے جغرافیائی اعتبار سے مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے کیونکہ 1840 میں زورآور سنگھ نے گلگت بلتستان کو فتح کیا تو یہ پورا علاقہ ریاست کشمیر کا حصہ بن چکا تھا، تب سے یہ پورا خطہ کشمیر کے ساتھ جڑا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ 16 جنوری 1948 کو پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں گلگت بلتستان کو پاکستان کے بجائے مسئلہ کشمیر کا حصہ قرار دے دیا تھا، یوں اقوام متحدہ کے چارٹر میں پاکستان کا باقاعدہ موقف درج ہوگیا اور گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا حصہ قرار پایا، اِس وقت اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق 84 ہزار مربع میل متنازعہ علاقہ ہے، اگر ہم غور کریں تو آزاد کشمیر صرف 4 ہزار مربع میل جبکہ مقبوضہ کشمیر 52 ہزار مبع میل ہے لہذا اقوام متحدہ میں رجسٹر شدہ موقف کو ثابت کرنے کیلئے جب تک گلگت بلتستان کے 28 ہزار مربع میل کو شامل نہیں کریں گے اس وقت تک پاکستان کا موقف ثابت نہیں ہوگا، بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ 1973 کے آئین میں دفعہ 257 کے تحت گلگت بلتستان ریاست کشمیر کا حصہ ہے، ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ گِدھ کس مکاری کے ساتھ ہمیں نوچنے کیلئے چونچ کھول چکا ہے، تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کو تقسیم در تقسیم آج مکمل کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ایک بار پھر مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں
آج اگر وقتی اور نظر آنے والے مفاد کو سامنے رکھ کر ہم نے اس تقسیم کو قبول کیا اور خدانخواستہ کشمیر ہاتھ سے نکل گیا تو آنے والا وقت ہمیں کشمیر فروش کے نام سے یاد کرےگا تاہم اگر آپ واقعی قوم کے ساتھ مخلص ہیں اور ان کی محرومیوں کا ازالہ چاہتے ہیں تو یاد رکھئے اپنی کرسی پکی کرنے کیلئے عبوری صوبے کے دریا کی ظغیانی کو عبور کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، مسائل کا حل مسئلے کی نوعیت کو سمجھ کر اُس کمزوری کو زائل کرنے میں ہے جس کی وجہ سے کسی بھی خطے کے باشندے خود کو محروم تصور کرتے ہیں، بصورت دیگر آپ کرسی پکی کرنے کے چکر میں پورے خطے کی بنیادیں ہلا دیں گے اور اپنی کشتی بناتے بناتے قوم کی نیّا بیچ بھنور میں ڈبو دیں گے پھر آپ بچیں گے نہ آپ کی کرسی بچے گی، لہذا اقتدار کے نشے میں مست عقل و فہم سے عاری فیصلے قوم پر تھوپنے والے دانشور کسی بھی قسم کے حتمی فیصلے سے قبل بزرگوں کی 74 سالہ قربانیوں کا حساب ضرور چکائیں
یونس راجہ

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan