گلگت بلتستان میں معیاری تعلیم خواب بن گیا۔پرائیویٹ ادارے تعلیم کے نام پر غریب عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے جب کہ والدین اسلام آباد اور ترقی یافتہ صوبوں کے پرائیویٹ سکولوں سے بھی زیادہ فیس وصول کرنے پر مجبور۔والدین حصول تعلیم دلانے سے پہلے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور جبکہ سرکاری سکولوں میں بھاری تنخواہ وصول کرکے بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ بھی بچوں کے مستقبل سے غافل پرائیویٹ اداروں میں پانچ ہزار اور چھ ہزار ماہانہ کے عویض میں اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کے دعویدار پرائیویٹ سکولن کے اساتذہ بھی کم تنخواہوں کے باعث طلباء و طالبات کا مستقبل کو خطرے میں ڈال کر صرف حاضری پوری کرنے لگے ۔محکمہ لیبر پروٹیکشن نے بھی چپ سادھ لی ۔حکومت کی عدم توجہی کے باعث معیاری تعلیم تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے جسکا نقصان بھی ماہانہ مزدوری کرکے بچوں کو معیاری تعلیم کا خواب دیکھ کر سکولوں میں داخل کروانے والے غریب والدین پر پڑھنے لگا ۔تفصیلات کے مطابق تعلیمی میدان میں گلگت بلتستان میں سو فیصد تعلیم ہونے کے سروے ہوچکے ہیں لیکن تیزی سے پرائیویٹ ادارے کھلنے کے باعث معیار تعلیم بھی تیزی سے گر رہی ہے ۔پرائیویٹ اداروں کے کمیٹی ممبران ادارے سے بھاری فیسوں کے ذریعے کما تو لیتے ہیں لیکن اساتذہ کو بہت ہی کم تنخواہیں ملنے کے باعث اساتذہ توجہ سے معیار تعلیم نہیں دے رہی لیبر پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کو چاہے کہ وہ جہاں بھی مزدوروں کے ساتھ زیادتی ہورہا وہاں آواز بلند کریں بدقسمتی سے یہاں تو اعلیٰ یونیورسٹیوں سے بھاری فیس ادا کرکے آنے والے پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم نہ ہونے کے باعث وہ آج اجرت سے بھی کم پیسے پر غیر معیاری خدمات انجام دینے کیلئے تیار ہیں ۔حکومت وقت کو چاہے کہ وہ تعلیمی اہمیت کو مد نظر رکھ کر اقدامات اٹھائیں۔